1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہٹلر کے گمشدہ قیمتی ’گھوڑے‘ مل گئے

امجد علی20 مئی 2015

فنی شاہکاروں کی بلیک مارکیٹ سے متعلق تحقیقات کرنے والی ایک جرمن ٹیم کو کانسی سے بنے دو گھوڑوں کے وہ مجسمے مل گئے ہیں، جو کسی زمانے میں برلن میں نازی آمر اڈولف ہٹلر کی دیو ہیکل چانسلری کی عمارت کے باہر نصب ہوا کرتے تھے۔

https://p.dw.com/p/1FTOR
Deutschland Archiv Gartenfront Neue Reichskanzlei
کانسی سے بنے گھوڑوں کے یہ مجسمے برلن میں ہٹلر کے چانسلر آفس کے باہر سیڑھیوں کے دونوں طرف ایستادہ ہوا کرتے تھےتصویر: picture-alliance/akg-images

پولیس کی یہ ٹیم آرٹ کے نمونوں کی غیر قانونی خرید و فروخت کے معاملے میں گزشتہ کوئی ایک سال سے تحقیقات کر رہی تھی۔ سراغ ملنے پر پولیس نے پانچ جرمن صوبوں میں بیک وقت مختلف مقامات پر چھاپے مارے۔

پولیس نے ان چھاپوں کے نتیجے میں جو شاہکار اپنے قبضے میں لیے ہیں، اُن میں کانسی سے تیار کردہ گھوڑوں کے وہ دونوں مجسمے بھی شامل ہیں، جو 1952ء میں انتقال کر جانے والے فنکار جوزیف تھوراک کی تخلیق تھے۔ یہ مجسمے 1989ء کے بعد سے لاپتہ تھے اور حالیہ برسوں میں بلیک مارکیٹ میں ان کے لیے 1.5 ملین سے لے کر چار ملین یورو تک کی پیشکش کی جا چکی ہے۔ ان میں سے ایک گھوڑے میں استعمال ہونے والی دھات کانسی کی قیمت ہی آج کئی لاکھ یورو بنتی ہے۔

جرمن دارالحکومت برلن کی پولیس کے ترجمان تھوماس نوئنڈورف نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ گھوڑوں کے ان مجسموں کے ساتھ ساتھ آرنو بیکر نامی فنکار کا تخلیق کردہ پانچ ضرب دَس میٹر سائز کا ایک سنگی مجسمہ بھی پولیس کے ہاتھ لگا ہے۔

پولیس ترجمان کے مطابق اس کیس کے سلسلے میں چونسٹھ تا اُناسی سال کی عمروں کے آٹھ جرمن شہریوں کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ مزید بتایا گیا ہے کہ ان چھاپوں کے دوران آرٹ کے دیگر بہت سے نمونے بھی ملے ہیں، جن کے بارے میں یہ پتہ چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اُنہیں بنیادی طور پر کہاں سے لایا گیا تھا۔

پولیس نے گھوڑوں کے جو مجسمے ڈھونڈ نکالے ہیں، وہ کبھی برلن کے وسط میں ہٹلر کی چانسلری کی عمارت میں سیڑھیوں کے دونوں جانب نصب ہوا کرتے تھے۔ برلن کی دیگر بہت سی عمارات کی طرح یہ عمارت بھی دوسری عالمی جنگ کے دوران ہونے والی بمباری کے نتیجے میں بری طرح سے تباہ ہو گئی تھی۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد اس عمارت کو مکمل طور پر منہدم کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا۔ تب سوویت افواج نے اس عمارت کی دیواروں کے سرخ سنگِ مرمر کا زیادہ تر حصہ مشرقی برلن میں اپنے ہلاک ہو جانے والے فوجیوں کی یادگار کی تعمیر میں استعمال کر لیا تھا۔

Sowjetisches Ehrenmal an der Straße des 17. Juni in Berlin
مشرقی برلن میں ہلاک ہونے والے سوویت فوجیوں کی یہ یادگار ہٹلر کے مکمل طور پر منہدم کر دیے جانے والے چانسلر آفس کی دیواروں سے حاصل شُدہ سرخ پتھر سے تیار کی گئیتصویر: picture-alliance / Berliner_Zeit

پولیس ترجمان کے مطابق آرنو بیکر کا تخلیق کردہ پانچ ضرب دَس میٹر سائز کا جو سنگی مجسمہ ملا ہے، اُس میں ’نازیوں کے مخصوص اسٹائل میں‘ اپنے پٹھوں کی نمائش کرنے والے ایسے جنگجو دکھائے گئے ہیں، جن کے سینے بے لباس ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ یہ مجسمہ بھی چانسلری میں نصب ہونا تھا لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔

آخری مرتبہ آرٹ کے یہ نمونے 1989ء میں مشرقی جرمنی میں کھیل کے ایک میدان میں منعقدہ ایک نمائش میں دیکھے گئے تھے۔ یہ میدان برلن کے قریب ایبرزوالڈے کے مقام پر سوویت بیرکوں کا ایک حصہ ہوا کرتا تھا۔

اس کے بعد دیوارِ برلن گر گئی اور دونوں جرمن ریاستیں پھر سے ایک ہو گئیں تاہم آرٹ کے یہ نمونے لاپتہ ہو گئے۔ اب یہ شاہکار صوبے رائن لینڈ پلاٹینیٹ کے شہر باڈ ڈُرکہائم میں ایک گودام میں سے ملے ہیں۔ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ یہ چیزیں اس گودام تک کیسے پہنچیں۔ پولیس نے یہ اطلاع ملنے پر چھاپے مارے تھے کہ کچھ لوگ آرٹ کے اِن شاہکاروں کو بلیک مارکیٹ میں فروخت کرنے والے ہیں۔