ہسپانوی ہسپتال میں ایبولا کیسے پھیلا: یورپی یونین کا سوال
8 اکتوبر 2014یورپی یونین نے اسپین کے محکمہ ہیلتھ سے سوالات کیے ہیں کہ اگر حفاظتی تدابیر مناسب تھیں تو ایبولا کیسے اور کیونکر ہسپتال کی ایک نرس میں منتقل ہوا؟ یورپی یونین نے حفاظتی اقدامات کی ناکامی پر گہری تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ یورپی کمیشن نے ہسپانوی حکومت کو تحریری طور پر اِس حوالے سے جواب طلب کیا ہے۔ ابھی ہسپانوی حکام نے یورپی یونین کے سوالات کے جوابات فراہم نہیں کیے ہیں۔ امکاناً اِس کی وجہ میڈرڈ کے پرائمری ہیلتھ کے محکمے کی جانب سے جاری تفتیشی عمل ہو سکتا ہے۔ ہسپانوی حکومت کے ہیلتھ ایمرجنسی کوآرڈینیٹر فرنانڈو سیمون کا کہنا ہے کہ ایبولا وبا کے پھوٹنے کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔
ہسپتال کے اسٹاف نے کمزور حفاظتی تدابیر پر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا ہے۔ کارلوس ہسپتال کے ہیلتھ ورکرز یونین کا کہنا ہے کہ جب نرس نے علالت محسوس کی تو اُس نے ہسپتال سے رجوع کیا تھا لیکن ابتدائی معائنے کے بعد ڈاکٹروں نے اُسے لوکل ہیلتھ کیئر سے علاج کروانے کا مشورہ دیا تھا۔ میڈیکل اسٹاف نے لاپاز کارلوس تھری ہسپتال کے باہر مظاہرہ کیا اور ہیلتھ منسٹر انا ماٹو کے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔ ہیلتھ ورکرز یونین کا یہ بھی کہنا ہے کہ عملہ مناسب طور پر تربیت یافتہ بھی نہیں ہے۔ یونین کی لیڈر ایلینا مورال کا کہنا ہے کہ ایبولا وائرس سے نمٹنے کے لیے ہسپتال میں بنیادی ڈھانچہ ہی موجود نہیں ہے۔ کارلوس تھری ہسپتال کے ڈائریکٹر رافائل پیریز سانتامارینا کا کہنا ہے کہ نرس کو ہسپتال میں اِس لیے داخل نہیں کیا گیا تھا کہ وہ معمولی بخار میں مبتلا تھی اور ایبولا کے مریض کو بہت تیز بخار ہوتا ہے۔
میڈرڈ کے ہسپتال میں اب باون افراد کو نگرانی میں رکھا گیا ہے گزشتہ روز ایسے افراد کی تعداد تیس بتائی گئی تھی۔ اِن میں زیادہ تر کا تعلق ہسپتال سے ہے۔ اِس دوران ڈاکٹروں نے تین مزید افراد میں ایبولا وائرس کی ممکنہ علامات کا احساس کرتے ہوئے انہیں بھی علیحدہ کر دیا ہے۔ حکام کے مطابق ایک چوتھے مریض میں پیچش اور قے کی علامات ظاہر ہونے پر اُسے بھی ہسپتال میں داخل کر کے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ اِن چار ہائی رِسک مریضوں میں ایک ہسپانوی انجینئر بھی ہے جو حال ہی میں نائجیریا سے لوٹا تھا۔
اسپین کی جس نرس کو ایبولا نے اپنی گرفت میں لیا ہے، اُس کا نام ہسپانوی ذرائع ابلاغ پر ٹریسا رومیرو بتایا جا رہا ہے۔ میڈرڈ حکام نے ابھی تک نرس کا نام عام نہیں کیا اور مخفی رکھا ہوا ہے۔ ہسپانوی نرس براعظم افریقہ سے باہر ایبولا کی لپیٹ میں آنے والا پہلی مریض بن گئی ہیں۔ وہ اِس وقت میڈرڈ کے بڑے اور اہم طبی ادارے لاپاز کارلوس تھری ہسپتال میں خصوصی نگہداشت کے تحت زیرِ علاج ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پیر سے ہسپتال میں اُس کو علیحدہ کرنے سے قبل اِس کا بھی تعین کیا جا رہا ہے کہ بیمار نرس کن کن افراد کے رابطے میں رہی تھی۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اُس کے شوہر کو ہائی رسک قرار دے کر ہسپتال میں داخل کر لیا گیا ہے۔ نرس کے شوہر کا نام ہسپانوی میڈیا پر خاوئیر لیمون بتایا جا رہا ہے۔ لیمون نے معروف ہسپانوی اخبار المونو کو بتایا کہ اُس کی بیوی نے اُن تمام ہدایات پر عمل کیا جو اُس کو ہسپتال کی جانب سے بتائی گئی تھیں۔ نرس کے شوہر نے میڈیا کو بتایا کہ اُس کو محکمہ ہیلتھ کی جانب سے ایک خط دیا گیا ہے اور ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے پالتو کتے کو فوری طور پر ہلاک کر دے۔ اُس کا مزید کہنا ہے کہ حکام نے اُس پر واضح کیا ہے کہ اگر وہ کتے کو ہلاک کرنے کی اجازت نہیں دے گا تو عدالتی حکم بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
مغربی افریقہ کے تین سے زائد ملکوں میں ایبولا کی وبا پھوٹنے سے ساڑھے تین ہزار کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔