ہسپانوی نرس ایبولا وائرس کی لپیٹ میں
7 اکتوبر 2014ہسپانوی نرس نے اُن دو پادریوں کی علاج کے دوران مدد کی تھی جو مغربی افریقہ میں ایبولا کی زد میں آ گئے تھے۔ اُن کو علاج کے لیے واپس اسپین لایا گیا تھا۔ علاج کے دوران نرس اُن کی تیمارداری اور دیکھ بھال کرتی رہی۔ یورپی ملکوں میں نرس کے ایبولا وائرس میں مبتلا ہونے پر تشویش پیدا ہو گئی ہے کہ آیا ہسپانوی ہسپتالوں میں ایبولا کی تشخیص اور علاج کا مناسب انتظام نہیں ہے۔ نرس کے ساتھ ساتھ اب طبی حکام تیس دوسرے ہیلتھ ورکرز کی بھی نگرانی کر رہے ہیں کیونکہ وہ بھی نرس کے ساتھ رابطے میں رہے تھے۔
ہسپانوی حکام نے نرس کا نام مخفی رکھا ہے۔ میڈرڈ حکومت کا محکمہ ہیلتھ اِس کی تحقیق کرنے میں مصروف ہیں کہ نرس کس طرح ایبولا وائرس کی لپیٹ میں آئی ہے۔ میڈرڈ کے پرائمری ہیلتھ کیئر سروس کے سربراہ انتونیو الیمانی نے انکوائری کی تصدیق کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ امرباعثِ تشویش ہے کہ ایبولا علاج کے لیے مقرر حفاظتی تدابیر کے باوجود ایک پیشہ ور طبی ورکر کیسے ایبولا میں مبتلا ہو گیا۔
نیوز کانفرنس میں انتونیو الیمانی نے بتایا کہ ایبولا میں مبتلا ہونے والی نرس اُس اسپیشل ٹیم کا حصہ ہے جس نے سرالیون سے لوٹنے والے پادری مانویل گارشیا کا علاج کیا تھا۔ پادری کو اکیس ستمبر کو میڈرڈ کے کارلوس سوم ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا اور وہ چار دن بعد (پچیس ستمبر) کو ہلاک ہو گیا تھا۔ گارشیا کو کارلوس سوم ہسپتال میں بقیہ مریضوں سے الگ تھلگ رکھا گیا تھا۔ علاج کرنے والے ہسپتال کے عملے کا کہنا ہے کہ انہوں نے سختی کے ساتھ طے شدہ اصولوں پر عمل کیا تھا تاکہ باقی ملازمین اور مریض ایبولا سے محفوظ رہ سکیں۔
میڈرڈ کے پرائمری ہیلتھ کیئر سروس کے سربراہ انتونیو الیمانی کے مطابق پادری مانویل گارشیا کے علاج کے دوران نرس صرف دو مرتبہ اُن کے کمرے میں گئی تھی۔ الیمانی کے مطابق ایک مرتبہ جب وہ زندہ تھے اور دوسری مرتبہ اُن کی موت واقع ہونے کے بعد نرس گارشیا کے کمرے میں گئی تھی۔ ہیلتھ حکام کے مطابق ایبولا میں مبتلا نرس اُس عملے کا بھی حصہ تھی جو ایک دوسرے پادری میگوئل پاخاراز کا علاج کر رہا تھا۔ پادری پاخاراز کو لائبیریا سے سات اگست کو اسپین لایا گیا اور وہ پانچ دن بعد فوت ہو گیا تھا۔ نرس کو پہلی مرتبہ اپنی علالت کا احساس تیس ستمبر کو ہوا۔