1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہالينڈ ميں مائيکروبز کا عجائب گھر، دنيا ميں اپنی نوعيت کا پہلا

عابد حسين1 اکتوبر 2014

ہالينڈ کے شہر ايمسٹرڈيم ميں گزشتہ روز ايک منفرد ميوزيم کا افتتاح ہوا، جس ميں مختلف اقسام کے انتہائی چھوٹے جانداروں اور جراثیم جمع کر کے نمائش کے ليے رکھے گئے ہيں۔ عالمی سطح پر يہ اپنی نوعيت کا پہلا عجائب گھر ہے۔

https://p.dw.com/p/1DOAI
تصویر: Fotolia/jovanmandic

دس ملين يورو سے تيار ہونے والے ’مائيکروپيا ميوزيم‘ کا افتتاح منگل تيس ستمبر کے روز ہوا۔ اس منفرد ميوزيم ميں دنيا کی تمام زندہ اجسام ميں ايک تہائی تعداد کے حامل نظر نہ آنے والے جانداروں بشمول جراثیم کی نمائش جا رہی ہے۔ یہ انتہائی چھوٹی حیات یا خرد حیویہ اور جراثيم کو زمین سيارے کے مستقبل کے ليے کافی اہم تصور کيے جاتے ہيں۔

اس ميوزيم کے ڈائريکٹر ہيگ باليان نے دراصل اس طرز کے کسی ميوزيم کے بارے ميں بارہ سال قبل سوچا تھا۔ نيوز ايجنسی اے ايف پی سے بات چيت کرتے ہوئے انہوں نے بتايا، ’’روايتی طور پر چڑيا گھر ہمارے ماحول کے صرف ايک ہی حصے کو دکھاتے ہيں جو کہ بڑے جانوروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ انہوں نے مزيد کہا کہ اپنے اس ميوزيم ميں اب وہ نيچر کے انتہائی چھوٹے چھوٹے جانداروں کو دکھانا چاہتے ہيں۔ باليان کا ايسا ماننا ہے کہ انسانوں کی روز مرہ کی زندگی ميں جراثيموں کے کردار کو کافی کم اہميت دی جاتی رہی ہے اور انہيں نظر انداز کرنے کا يہ سلسلہ 17 ويں صدی ميں اس وقت ہی سے جاری ہے، جب ڈچ سائنسدان Antonie van Leeuwenhoek نے انہيں دريافت کيا تھا۔

ميوزيم ميں مغربی افريقی ممالک ميں موت کا استعارہ بننے والا ايبولا وائرس بھی موجود ہيں
ميوزيم ميں مغربی افريقی ممالک ميں موت کا استعارہ بننے والا ايبولا وائرس بھی موجود ہيںتصویر: picture-alliance/Everett Collection

ايمسٹرڈيم ميں کھولا جانے والا یہ ميوزيم بظاہر ايک ليبارٹری کی طرح دکھائی دیتا ہے، جس ميں ہر جگہ مائيکرو اسکوپس کو بڑی بڑی ٹيلی وژن اسکرينوں کے ساتھ جوڑا گيا ہے۔ ميوزيم ميں موجود لوگ ان مختلف اقسام کے جرثوموں کو ديکھ سکتے ہيں۔ ميوزيم ميں ان دنوں مغربی افريقی ممالک ميں موت کا استعارہ بننے والے ايبولا وائرس بھی موجود ہيں۔

اگرچہ جراثيم کو بيکٹيريا اور مختلف اقسام کے وائرسز اور بيماريوں سے جوڑا جاتا ہے تاہم انسان کی بقا کے ليے بھی يہ کافی اہميت کے حامل ہيں۔ ميوزيم کے ڈائريکٹر ہيگ باليان مزيد کہتے ہيں، ’’مائکروب يا انتہائی معمولی حیات (خرد حیویہ) یا کسی حد تک جرثومہ ہر جگہ موجود ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ آپ کو مائکرو بيالوجسٹ بھی چاہييں، جو ہر شعبے ميں کام کر سکيں خواہ وہ ہسپتال ہوں، کھانے پينے کی اشياء سے متعلق صنعت، فارماسيوٹيکل يا تيل سے متعلق صنعت۔‘‘

يہ امر اہم ہے کہ مائکروبز کو بائيو ايندھن، نئی اينٹی بايوٹک ادويات کی تياری اور فصلوں کی بہتر پيداوار کے ليے استعمال ميں لايا جاتا ہے۔ سائنسی تجربات ميں يہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ چند اقسام کے مائيکروبز بجلی کی پيداوار، عمارات کو پختہ بنانے اور سرطان کے علاج ميں مددگار ثابت ہو سکتے ہيں۔ انسانی جسم ميں بھی اوسطاً ڈيڑھ کلو وزن کے مائکروبز ہوتے ہیں، جن کے بغير کسی شخص کا زندہ رہنا ممکن نہيں۔