ہاتھ سے بنے جوتے فرانسیسی صدر کے لیے نیا درد سر
18 اپریل 2014اس سے قبل فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ پر شدید دباؤ تھا کہ وہ اپنے اس قریبی مشیر اور سوشلسٹ رہنما موریل کو برطرف کر دیں۔ فرانسیسی میڈیا موریل کے پرتعیش معیار زندگی اور خصوصاﹰ ان کے ہاتھ سے تیار کردہ جوتوں کے جوڑوں پر شدید تنقید کر رہا ہے۔
فرانسیسی ویب سائٹ میڈیا پارٹ کے مطابق اکیلینو موریل اولانڈ کے عوامی رابطے کے شعبے کے سربراہ تھے اور اس ویب سائٹ نے انکشاف کیا تھا کہ صدارتی محل ایلیزے پیلس میں ان کے پاس ہاتھ سے بنے جوتوں کے تیس جوڑے ہیں، جنہیں ہر دو ماہ میں ایک مرتبہ پیشہ ورانہ پالش کی ضرورت پڑتی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ صدر کے اس مشیر کا زندگی میں ہر شے ’بہترین‘ چاہیے کا اصول انہیں دوپہر کے کھانے کے موقع پر صدارتی محل کے تہہ خانے میں موجود پرانی شرابوں تک بھی پہنچا دیتا تھا۔ رپورٹ میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھا کہ موریل نے سرکاری مراعات کا ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
موریل نے جوتوں کے حوالے سے ان رپورٹوں کی تردید نہیں کی تھی، تاہم یہ تصدیق ضرور کی تھی کہ انہوں نے اپنے لیے مختص دو ڈرائیوروں کو چند مرتبہ اپنی ’انتہائی مصروفیت‘ کی وجہ سے اپنے بچے کو اسکول سے گھر لے جانے کے لیے بھیجا تھا۔
میڈیا پارٹ کی جانب سے صدارتی مشیر پر سب سے سخت الزام یہ تھا کہ انہوں نے سن 2007ء میں، جب وہ سماجی امور کی وزارت میں سینیئر عہدیدار کے بطور کام کر رہے تھے، ادویات ساز کمپنیوں کے لیے بھی کام کیا۔ تاہم موریل نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے اپنے فیس بک پیچ پر لکھا، ’میں کسی بھی موقع پر مفادات کے تصادم کی صورتحال کا شکار نہیں ہوا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’سرکاری ملازم کے طور پر کام کرنے والے بعض اوقات قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے دیگر اداروں اور کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں، جن میں تعلیم اور مشاورت کے شعبے شامل ہیں۔‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایسی کسی بھی سرگرمی کے لیے کسی بھی سرکاری ملازم کو ایک خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا ہوتا ہے، تاہم موریل کے محکمے کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں موریل کو کبھی کوئی اجازت نامہ جاری نہیں کیا گیا۔
اے ایف پی کے مطابق اس بات سے قطع نظر کہ آیا موریل کی یہ سرگرمیاں درست تھیں یا غلط، ان الزامات کی وجہ سے فرانسیسی صدر اولانڈ، جو پہلے ہی متعدد تنازعات سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ نیا تنازعہ ایک نئی شرمندگی کا باعث بنا ہے۔ واضح رہے کہ عوامی جائزوں کے مطابق فرانسوا اولانڈ کو گزشتہ کئی عشروں میں کسی بھی فرانسیسی صدر کو حاصل عوامی مقبولیت سے کہیں کم پذیرائی حاصل ہے۔