گھریلو زندگی گزارنے کا روایتی طریقہ کار دم توڑ رہا ہے
21 اکتوبر 2014جرمنی میں 2013 ء میں محدود پیمانے پر کرائی جانےوالی ایک مردم شماری کے مطابق گزشتہ برس ملک بھر میں بیس فیصد والدین ایسے تھے، جو اپنے بچوں کی تنہا پرورش کر رہے تھے۔ اس طرح یہ شرح 1996ء کے مقابلے میں چھ فیصد زیادہ ہے۔ ان والدین میں سے دس فیصد یا تو غیر شادی ہیں یا وہ اپنے ہم جنس ساتھی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں اور یہ شرح بھی پہلے کے مقابلے میں دوگنی ہو چکی ہے۔
شہر ویزباڈن سے جاری کیے جانے والے ان اعداد وشمار کے مطابق جرمنی میں8.1 ملین شادی شدہ جوڑے ہیں اور ان میں سے ستر فیصد کے ہاں کم از کم ایک بچہ ہے۔ ان ستر فیصد میں بچوں کے حقیقی والدین کے ساتھ ساتھ بچوں کو گود لینے والے اور سوتیلے ماں باپ بھی شامل ہیں۔ سماجی امور کے ماہر یورگن ڈوبرٹز کے خیال میں بچوں کی وجہ سے شادی کو ابھی تک جرمنی میں خاندان کی تکمیل کے لیے اہم ترین سمجھا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں بچوں کی وجہ سے اکثر جوڑے شادی کر لیتے ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ہی معاشرے میں شادی کی حقیقت اور اہمیت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ان کے بقول اسی وجہ سے جرمنی اور یورپ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی اکثر بچوں کو گھروں میں پہلے کے مقابلے میں مختلف فیملی ماڈل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یورگن ڈوبرٹز مزید کہتے ہیں کہ کنبے کے تصور میں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ خواتین روزگار کی منڈی میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ متحرک دکھائی دیتی ہیں۔ دفتروں اور کمپنیوں میں خواتین کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس جائزے کے مطابق جرمنی میں بیس سے انتالیس سال کی درمیانی عمر کے 35 فیصد افراد اس امر سے انکار کرتے ہیں کہ کنبہ شادی کرنے کے بعد ہی مکمل ہوتا ہے۔ ڈوبرٹز کے بقول بچوں کی ذمہ داری قبول نہ کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور ہر دسواں نوجوان بچےکے بغیر ہی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔
تاہم مشرقی جرمنی میں خاندانی تصور کچھ مختلف ہی ہے۔ وہاں بچوں والے نوجوان جوڑوں کی تعداد مغربی جرمنی سے زیادہ ہے لیکن وہاں شادیاں کرنے کا رجحان کم ہے۔ جرمن صوبے رائن لینڈ پلاٹینیٹ میں ازدواجی رشتے کے بغیر ساتھ رہنے کی شرح صرف چھ فیصد ہے، جو دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ برلن میں تنہا بچوں کی پرورش کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔