1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گنگا کی صفائی میں جرمن تعاون

جاوید اختر، نئی دہلی21 اکتوبر 2014

ایک زمانے میں آب حیات کہلانے والے دریائے گنگا کا پانی بے پناہ آلودہ ہو چکا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اس پر ملکی حکومت کی سخت سرزنش کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1DZ92
تصویر: DW/S. Waheed

دریائے گنگا کی عظمت رفتہ بحال کرنے کے بھارتی حکومت کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں جرمنی نے تعاون کی پیشکش کی ہے اورجرمن ماہرین کی ایک ٹیم نے صورت حال کا معائنہ بھی کیا ہے۔

جرمن وزارت ماحولیات سے وابستہ سابق ڈپٹی ڈائریکٹر Friz Holyzwarth اور باویریا واٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے سابق سربراہ اور متعدد ملکوں کے آبی مشیر یو ڈبلیو ای فائمن نے گنگا کے کنارے آباد شہر کانپور کا دورہ کیا۔ ان ماہرین کے لیے یہ بات حیران کن ثابت ہوئی کہ شہر کا41 ملین لیٹر یومیہ گندا پانی دریائے گنگا میں جاتا ہے۔ جرمن ٹیم اس وقت مزید حیرت زدہ رہ گئی جب اسے معلوم ہوا کہ پانی کو آلودہ کرنے والے کارخانوں پر شکنجہ کسنے کا کوئی ٹھوس انتظام نہیں ہے اور قانون شکنی کرنے پر محض 50سے 200 روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ جرمنی نے دریائے رائن کو صاف کرنے کے اپنے تجربہ کے مدنظر گنگا کو صاف کرنے کی پیش کش کی تھی۔


بھارت کے سرکاری ادارے ’سنٹرل پالیوشن کنٹرول بورڈ‘ کی رپورٹ کے مطابق گنگا کی صفائی کے لیے مختلف منصوبوں پر حکومت اب تک 20,000 کروڑ روپے خرچ کر چکی ہے لیکن اس کے باوجود نتیجہ صفر ہے۔

کانپور شہر کا41 ملین لیٹر یومیہ گندا پانی دریائے گنگا میں جاتا ہے
کانپور شہر کا41 ملین لیٹر یومیہ گندا پانی دریائے گنگا میں جاتا ہےتصویر: DW

بھارتی سپریم کورٹ نے اس پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہی حال رہا تو 200 برس بعد بھی گنگا کا صاف ہونا مشکل ہے۔ اس حوالے سے ماہر ماحولیات اور ’جمنا جیے ابھیان‘ نامی تنظیم کے سربراہ منوج مِشرا نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’جب ہم گنگا کی بات کرتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ گنگا کتنی لمبی ہے، اگر آپ گنگا کو صرف ڈھائی ہزار کلومیٹر تک دیکھیں گے تو اسے کبھی صاف نہیں کرسکتے۔ گنگا دراصل 25ہزار کلومیٹر لمبی ندی ہے اور جب تک اسے جامع انداز میں نہیں دیکھیں گے تب تک سپریم کورٹ کی پھٹکار سنتے رہیں گے۔‘‘


خیال رہے کہ تقریباﹰ ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل گنگا ہمالہ سے نکل کر بھارت کے مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے بنگلہ دیش پہنچتی ہے اور خلیج بنگال میں مل جاتی ہے۔ بھارت کی آبادی کا تقریباﹰ37 فیصد گنگا کے کنارے آباد ہے، جو پینے کا پانی، زراعت اور روزی روٹی کے لیے اسی پر انحصار کرتی ہے۔ لیکن ماہرین کے مطابق گنگا کا پانی اب زہریلا ہوچکا ہے۔

ماہرین کے مطابق پینے اور نہانے کے لیے فی 100ملی لیٹر پانی میں بالترتیب 50 اور 500 فیکل کولی فورم بیکٹیریا کی موجودگی کوغیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ زراعت کے لیے یہ پانچ ہزار سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے لیکن بنارس میں گنگا کے پانی میں فیکل کولی فورم کی مقدار ایک تا دو ملین ہوچکی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پینے کے لیے تو دور یہ نہانے اور زراعت کے لیے بھی تباہ کن ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے گنگا کوصاف کرنے کے لیے ایک علیحدہ وزارت قائم کردی ہے اور عوام سے گنگا کی صفائی مہم میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے
وزیر اعظم نریندر مودی نے گنگا کوصاف کرنے کے لیے ایک علیحدہ وزارت قائم کردی ہے اور عوام سے گنگا کی صفائی مہم میں شامل ہونے کی اپیل کی ہےتصویر: UNI

منوج مِشرا کو بہرحال امید ہے کہ گنگا کو صاف کیا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ملک میں پہلی مرتبہ ایسا ماحول بنا ہے کہ وزیر اعظم کی خواہش ہے کہ گنگا کا احیاء ہو، وزیر ایسی ہیں جو گنگا کی صفائی کی دلی خواہش رکھتی ہیں، سپریم کورٹ بھی چاہتا ہے کہ ایسا ہو، پورا ملک چاہتا ہے کہ گنگا کی عظمت رفتہ واپس لوٹ آئے۔ ایسا ماحول شاید دوبارہ کبھی نہیں آئے گا لیکن کمی صرف ایک درست روڈ میپ کی ہے۔‘‘


خیال رہے کہ سابق بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے 1985ء میں گنگا کو صاف کرنے کے لیے 226 ملین ڈالر کے گنگا ایکشن پلان کی منظوری دی تھی۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ نے 2009ء میں مشن کلین گنگا کے نام سے پراجیکٹ کا اعلان کیا لیکن مسئلہ اب بھی جوں کا توں ہے۔ تاہم اب وزیر اعظم نریندر مودی نے گنگا کوصاف کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ انہوں نے اس کے لیے ایک علیحدہ وزارت بھی قائم کردی ہے اور عوام سے گنگا کی صفائی مہم میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے۔ لیکن منوج مِشرا کے بقول گنگا اس وقت تک صاف نہیں ہوسکتی ہے جب تک لوگ ’ریور اور سیور‘ کے فرق کو نہیں سمجھیں گے اور یہ کہ ان دونوں میں کوئی رشتہ نہیں ہے۔