1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کینیا نے ایبولا زدہ ملکوں کے مسافروں پر پابندی لگا دی

ندیم گِل17 اگست 2014

کینیا نے ہلاکت خیز ایبولا وائرس سے متاثرہ ملکوں سے مسافروں کی اپنے ہاں آمد پر پابندی لگا دی ہے۔ کینیا کی وزارتِ صحت کے مطابق یہ پابندی منگل سے نافذ ہو جائے گی۔

https://p.dw.com/p/1Cvun
تصویر: picture-alliance/dpa

مغربی افریقہ کے ملکوں سیرا لیون، لائبیریا اور گنی میں ایبولا وائرس پھیلا ہوا جس کے نتیجے میں گیارہ سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ کینیا نے ان ملکوں سے سفر کرنے والوں پر اپنی سرحدوں میں داخلے پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی کینیا کی فضائی کمپنی کینیا ایئرویز نے منگل سے لائبیریا اور سیرا لیون کے لیے اپنی پروازیں منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق براعظم افریقہ میں سفر کے لیے کینیا کے دارالحکومت نیروبی کا ایئرپورٹ اہم ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیش (ڈبلیو ٹی او) کے مطابق رواں ہفتے بدھ تک سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق تینوں متاثرہ ملکوں میں اب تک ایبولا کے دو ہزار ایک سو ستائیس کیسز سامنے آ چکے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار ایک سو پینتالیس تک پہنچ چکی ہے۔

اُدھر لائبیریا میں طبی کارکنوں نے ایبولا کے شکار تین ڈاکٹروں کو تجرباتی دوا ZMapp دی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے یہ بات مونرویا میں موجود طبی ذرائع کے حوالے سے بتائی ہے۔

Elfenbeinküste Felix Houphouet Boigny International airport Ebola Maßnahme
افریقی ملکوں کے ہوائی اڈوں پر ایبولا سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

ایبولا کے نتیجے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں لائبیریا میں ہی ہوئی ہیں جن کی تعداد چار سو تیرہ ہے۔ وہاں تجرباتی دوا لینے والے ڈاکٹروں کا تعلق آئرلینڈ، نائجیریا اور لائبیریا سے ہے۔ اس سے پہلے یہ دوا دو امریکی طبی کارکنوں اور اسپین کے ایک مسیحی مذہبی رہنما کو بھی دی جا چکی ہے۔ یہ سب بھی لائبیریا کے ہسپتالوں میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ امریکی طبی کارکنوں کی حالت بہتر ہوئی ہے تاہم اسپین کے مذہبی رہنما کی موت واقع ہو چکی ہے۔

مونرویا میں جان ایف کینیڈی میڈیکل سینٹر کے چیف میڈیکل آفیسر ڈاکٹر بِلی جانسن کا کہنا ہے: ’’تین ڈاکٹروں کو اس وقت ایبولا کی تجرباتی دوا دی جا رہی ہے۔ ان کا علاج جمعرات کی شام شروع کیا گیا تھا۔‘‘

روئٹرز کے مطابق ایک اور طبی کارکن نے بھی بتایا ہے کہ ایبولا کے شکار ڈاکٹروں کو ہفتے کو تیسرے دِن بھی دوا دی گئی۔ یہ علاج چھ روز تک جاری رہے گا۔ ان پر دوا کے کیا اثرات ہو رہے ہیں، اس بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس دوا کی تقریباﹰ دس سے بارہ خوراکیں تیار کی گئیں۔ اس سے ایک مشکل اخلاقی سوال جنم لیتا ہے کہ یہ پہلے کس کو دی جانی چاہیے۔ امریکی طبی کارکنوں کی حالت میں بہتری کے بعد یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ یہ دوا افریقہ میں اس وائرس کے شکار تمام افراد کو دی جانی چاہیے۔