1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا یورپی یونین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے ؟

امتیاز احمد24 اپریل 2015

ہر گزرتے دن کے ساتھ یونان دیوالیہ ہونے کے قریب ہوتا جا رہا ہے لیکن ایتھنز حکومت اور قرض دہندگان ابھی تک کوئی بھی معاہدہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ یہ بحران یورو کی قدر میں کمی کا بھی باعث بنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FEXD
Tagungsgebäude der lettischen Ratspräsidentschaft
تصویر: DW/B. Riegert

جمعے کو یورپی ملک لٹویا کے دارالحکومت ریگا میں یورپی وزرائے خارجہ اور یونان حکومت کے مابین ہونے والے مذاکرات ایک مرتبہ پھر بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہو گئے ہیں۔ یوروزون کے انیس وزرائے خزانہ کا کہنا تھا کہ یونان کو اس وقت تک سات اعشاریہ دو ارب یورو کا قرض نہیں دیا جا سکتا ، جب تک وہ یورپی یونین کی شرائط تسلیم نہیں کر لیتا۔ یونان پر پھر ایک مرتبہ دباؤ بڑھایا گیا ہے کہ وہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے جلد از جلد اقدامات کرے۔ جب تک یہ مذاکرات جاری ہیں، یہ خدشہ بھی ہے کہ یونان یورپی یونین کو چھوڑ سکتا ہے اور یہی خدشہ ڈالر کے مقابلے میں یورو کی قدر میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔

ان مذاکرات کے بعد یورو گروپ کے سربراہ جیرون ڈائسل بلوم کا کہنا تھا، ’’ یہ انتہائی پیچیدہ بحث تھی۔‘‘ دوسری جانب یوروزون کے وزرائے خارجہ اس بات پر بھی ناراض ہیں کی دو ماہ کے مسلسل مزاکرات کے بعد بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ یورو گروپ کے سربراہ کا کہنا تھا، ’’ یونان کے ساتھ بڑے، بڑے مسائل اب بھی موجود ہیں۔‘‘

آئندہ چند ہفتوں تک یونان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف اور یورپی مرکزی بینک ای سی بی سے لیے گئے قرض کی اقساط ادا کرنی ہیں جبکہ یہ اقساط ادا کرنے کے لیے اسے یورپی یونین سے مزید قرض کی ضرورت ہے۔ وزرائے خارجہ کا کہنا تھا کہ یونان کو قرض کی نئی قسط اس وقت تک ادا نہیں کی جا سکتی، جب تک وہ بچتی اقدامات سے متعلق قرض دہندگان کی شرائط نہیں مان لیتا۔

دوسری جانب یونان میں برسر اقتدار انتہائی بائیں بازو کی جماعت سیریزا نے کہا ہے کہ اُسے یہ سخت شرائط قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جا ئے۔ آج کے مذاکرات کے بعد یورو گروپ کا آئندہ اجلاس گیارہ مئی کو ہوگا اور اب سبھی کی نظریں اسی اجلاس پر مرکوز ہیں۔

برسلز میں یورپی یونین کے ہیڈکوارٹرز میں گزشتہ چند ہفتوں سے اعلیٰ یورپی اہلکاروں کے یہ بیانات گردش کر رہے ہیں کہ وہ ایتھنز کے ساتھ طویل مذاکرات سے اب اکتا گئے ہیں اور یہ توقع نہیں کرتے کہ بالآخر کوئی مثبت نتیجہ نکل سکے گا۔ یورپی کمیشن کے نائب صدر دومبروفسکِس نے تو ایک بار پھر تنبیہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا: ’’ہم یونان سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے ہاں ایک قابل اعتماد اصلاحاتی عمل کے عہد کا اظہار کرے اور ایسا بہت جلد ہونا چاہیے۔‘‘

خود یونان ہی کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ ایتھنز کی پالیسیاں یونانی عوام اور برسلز میں یونانی سفارت کاروں کے ساتھ ساتھ یورپی ماہرین کے لیے بھی ایک پہیلی بنی ہوئی ہیں۔ وزیر اعظم الیکسِس سِپراس بین الاقوامی مدد دہندہ اداروں سے جو سیاسی وعدے کرتے ہیں، ان کی فوری طور پر انہی کی حکومت کے دیگر ارکان تردید بھی کر دیتے ہیں۔ ایسے میں بہت سے یورپی سیاستدانوں اور اقتصادی ماہرین کو یقین ہوتا جا رہا ہے کہ بحران زدہ یونان ان پستیوں کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے، جہاں سے مزید پستی کی طرف جانا ممکن ہی نہیں ہوتا۔