کھیل بیمار بھی کر دیتے ہیں
20 اکتوبر 20142009ء میں جرمنی کے ایک چوٹی کے فٹ بال کھلاڑی رابرٹ اینکے نے شدید ڈیپریشن کا شکار ہو جانے کے بعد خود کُشی کر لی تھی۔ اُن کی پریشان اہلیہ تیریسا اینکے اپنے شوہر کی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے بتاتی ہیں:’’جب وہ زیادہ ڈیپریشن کا شکار ہوتے تھے تو ہمارے لیے حالات بہت ہی مشکل ہو جاتے تھے۔ زیادہ مشکل یہ ہوتی تھی کہ کہیں لوگوں کو اس کا پتہ نہ چل جائے۔ یہ ڈر رہتا تھا کہ ہم یہ کھیل، اپنی نجی زندگی، سارا کچھ ہی کھو دیں گے۔‘‘
عام طور پر کہا یہ جاتا ہے کہ کھیل سے جسم ہی نہیں بلکہ نفسیات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ سخت جسمانی مشقت والے کھیلوں میں اِس کے برعکس اثرات دیکھنے میں آ سکتے ہیں۔ کھیلوں سے متعلق نفسیات کے پروفیسر ژَینز کلائنرٹ کے مطابق ایسا خاص طور پر اُس وقت ہوتا ہے، جب کھلاڑی کے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ شاید وہ خود کو درپیش چیلنجوں پر پورا نہیں اتر سکے گا۔
پروفیسر ژَینز کلائنرٹ کہتے ہیں:’’جب انسان یہ محسوس کرے کہ وہ اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، تب اُس کے اندر مختلف طرح کے اندیشے گھر کرنے لگتے ہیں۔ یہ احساس اگر زیادہ دیر تک زیادہ شدت کے ساتھ رہے تو پھر خوف اس سطح تک پہنچ جاتا ہے کہ اُس کا باقاعدہ علاج کروانا ضروری ہو جاتا ہے۔‘‘
کولون کی جرمن اسپورٹس یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ برائے نفسیات کے سربراہ پروفیسر کلائنرٹ کے مطابق یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ نفسیاتی خرابیاں کھیل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ خرابیاں پہلے سے کسی شخص میں موجود ہوتی ہیں اور پھر اُن کا عکس اُس کے کھیل میں بھی نظر آنے لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رابرٹ اینکے کے کیس میں بھی نفسیاتی خرابی پہلے سے موجود تھی، جسے کھیل کی مدد سے بھی دور نہ کیا جا سکا۔
پروفیسر کلائنرٹ نے اپنے بہت سے مطالعاتی جائزوں میں یہ بات ثابت کی ہے کہ کھیل میں جسمانی مشقت کا پہلو نہ ہو تو وہ کسی انسان کی نفسیاتی حالت پر بہرحال مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کھیل کے دوران حرکت کرنے سے جسم کو گرمی ملتی ہے، ہارمونز اور پٹھوں کو تحریک ملتی ہے اور انسانی مزاج پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ساتھ ساتھ دیگر انسانوں سے ملنے ملانے کے مواقع میسر آتے ہیں، جو مزاج پر خوشگوار اثرات چھوڑتے ہیں۔
کھیلوں میں ہر قیمت پر کامیابی حاصل کرنے کے دباؤ کی وجہ سے کھیلوں کی بہت سی مثبت خصوصیات پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔ پروفیسر کلائنرٹ کے مطابق اس دباؤ کی وجہ سے بہت سے کھلاڑی کھیل کے اصل مقصد کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور صرف اُن توقعات کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں، جو عوام، میڈیا یا پھر اُن کے والدین اُن سے وابستہ کر لیتے ہیں۔