1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کن فلمی میلہ، اعلیٰ ترین اعزاز فرانسیسی فلم ’دھیپن‘ کے نام

امجد علی25 مئی 2015

تیرہ مئی کو فرانس میں کن کے مقام پر شروع ہونے والے اپنی نوعیت کے اڑسٹھ ویں بین الاقوامی فلمی میلے کا بہترین فلم کا ’گولڈن پام‘ ایوارڈ سری لنکا کے تامل پناہ گزینوں سے متعلق فرانسیسی فلم ’دھیپن‘ کے حصے میں آیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FVxF
تصویر: picture-alliance/abaca/G. Nicolas

اس طرح نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق کن میں منعقدہ تقریبِ تقسیمِ انعامات فرانسیسی فلمی صنعت کے لیے تو بہت شاندار رہی تاہم اٹلی کی فلموں اور آسٹریلوی اداکارہ کیٹ بلینچٹ کے لیے یہ تقریب مایوس کُن رہی۔

’گولڈن پام‘ کا اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کرنے والی فرانسیسی فلم میں ایسے تامل پناہ گزینوں کو موضوع بنایا گیا ہے، جو سری لنکا کی خانہ جنگی سے فرار ہو کر فرانس کا رُخ کرتے ہیں۔ اگرچہ اس فلم کے لیے سب سے بڑے اعزاز کو عالمی برادری کے نام ایک سیاسی پیغام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تاہم کچھ ناقدین اور فلم بینوں کو جیوری کے فیصلوں سے مایوسی ہوئی ہے۔

روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے فلموں کے شعبے کے معروف جریدے ’ویرائٹی‘ کے یورپ میں متعینہ ناقد جے وائس برگ نے کہا:’’یہ انتہائی مایوس کُن فیصلہ ہے، جس سے کوئی شخص بھی خوش نظر نہیں آ رہا۔‘‘ جے وائس برگ کے مطابق اس بار کا میلہ ویسے بھی زیادہ سے زیادہ درمیانے درجے کا تھا لیکن اس کا اختتام تو اور بھی مایوس کُن طریقے سے ہوا ہے۔

Filmfestival Cannes 2015 DHEEPAN von Jacques AUDIARD
فلم ’دھیپن‘ میں ایسے تامل پناہ گزینوں کو موضوع بنایا گیا ہے، جو سری لنکا کی خانہ جنگی سے فرار ہو کر فرانس کا رُخ کرتے ہیں۔تصویر: Festival de Cannes 2015 / Paul Arnaud / Why Not Productions

اس بار نو رکنی جیوری کی قیادت امریکا کے فلم ڈائریکٹر برادران ایتھن اور جوئل کوئن کر رہے تھے۔ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایتھن کوئن نے جیوری کے فیصلے اور خاص طور پر تامل پناہ گزینوں سے متعلق فلم کے لیے گولڈن پام ایوارڈ کے فیصلے کو ہر اعتبار سے جائز قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا:’’اس فلم کے بارے میں ہر کوئی کسی نہ کسی حد تک پُر جوش تھا اور ہم سب کا خیال یہ تھا کہ یہ ایک بہت ہی خوبصورت فلم تھی۔‘‘

گرینڈ جیوری کا دوسرا انعام ہنگری کے فلم ڈائریکٹر لاہسلو نیمیس کے کیریئر کی پہلی فلم ’سن آف ساؤل‘ کے حصے میں آیا۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے نازی اذیتی کیمپ آؤشوِٹس میں یہودیوں سے بیگار لی جاتی تھی۔ اس میں مرکزی کردار گیزا روہرک نامی ایک ایسے اداکار نے انتہائی عمدگی سے ادا کیا، جو پیشے کے اعتبار سے اداکار نہیں ہیں۔

جیوری پرائز جیتا، یونانی ہدایتکار یورگوس لانتھیموس کی انگریزی زبان کی ماورائے حقیقت فلم ’دی لابسٹر‘ نے، جو ایک ایسے انتہائی شاندار ہوٹل کے بارے میں ہے، جس میں صرف سنگلز یعنی اکیلے مرد اور اکیلی عورتیں ہی جا کر ٹھہرتے ہیں اور اگر وہ اپنا کوئی شریکِ حیات تلاش نہ کر سکیں تو وہ انسان سے جانور بن جاتے ہیں۔

بہترین ہدایتکار کا ایوارڈ تائیوان کے فلم ڈائریکٹر ہو ہسیاؤ ہسین کو دیا گیا، فلم ’دی اسیسن‘ کے لیے جبکہ فلم ’کرونِک‘ کے لیے میکسیکو کے ڈائریکٹر مِشیل فرانکو کو بہترین اسکرین پلے کا ’گولڈن پام‘ ایوارڈ دیا گیا۔

مقابلے کی اُنیس فلموں میں سے اکٹھی تین فلمیں اٹلی سے آئی تھیں، جو خالی ہاتھ گئیں۔ اسی طرح فلم ’کیرل‘ میں ایک شاپ گرل کی محبت میں گرفتار ہو جانے والی ایک دولت مند خاتون کے مرکزی کردار کو عمدگی کے ساتھ نبھانے پر آسٹریلوی اداکارہ کیٹ بلیچٹ کو بھی ناقدین نے بہت سراہا تھا تاہم بہترین اداکارہ کا ’گولڈن پام‘ اُن کے حصے میں نہ آ سکا۔

Filmfestival Cannes 2015 SON OF SAUL von László NEMES
گرینڈ جیوری کا دوسرا انعام ہنگری کے فلم ڈائریکٹر لاہسلو نیمیس کے کیریئر کی پہلی فلم ’سن آف ساؤل‘ کے حصے میں آیاتصویر: Festival de Cannes 2015

بہترین اداکارہ کا ’گولڈن پام‘ دو اداکاراؤں کے حصے میں آیا۔ ایک تو امریکی ہدایتکار ٹاڈ ہینز کی ہدایات میں بنی ہوئی اور دو خواتین کے درمیان محبت کی ایک ڈرامائی کہانی پر مبنی اسی رومانی فلم یعنی ’کیرل‘ میں شاپ گرل کا کردار ادا کرنے والی رُونی مارا کے حصے میں اور دوسرا فرانسیسی ہدایتکارہ مائی وَین کی فلم ’مائی کِنگ‘ میں اداکاری کے جوہر دکھانے والی ایمینوئل بیرکو کے حصے میں۔

بہترین اداکار کا ’گولڈن پام‘ فرانس ہی کے اداکار ونسینٹ لیڈوں کو دیا گیا، جنہوں نے فلم ’دی مَیّر آف اے مَین‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔