کرہء ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی جانچ، ناسا کا مشن مدار میں
3 جولائی 2014کرہء ہوائی میں موجود گرین ہاؤس گیسیں زمینی درجہ ء حرارت میں اضافے کا موجب ہیں جب کہ ان میں سب سے زیادہ اہم کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی ہے۔ ناسا کے مطابق اس وقت زمینی کرہء ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدارگزشتہ آٹھ لاکھ برس کی انتہائی سطح پر دیکھی جا رہی ہے۔ تاہم سائنسدان کرہء ہوائی میں اس گیس کی حقیقی مقدار جانچنا چاہتے ہیں۔
کرہء ہوائی میں اس گیس کی اصل مقدار کی پیمائش کے لیے اَوربٹِنگ کاربن آبزرویٹری ٹو یا گردشی کاربن رصدگاہ دوئم (OCO-2) نامی سیٹلائٹ نے زمینی مدار میں پہنچ کر اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ اس سے قبل سن 2009ء میں ایسا ہی ایک مشن OCO-1سیٹلائٹ بھی روانہ کیا گیا تھا، تاہم وہ لانچ کے موقع پر ہی تباہ ہو گیا تھا۔ اس نئے مشن کی بنیاد او سی او ون ہی ہے، تاہم اسے جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے، تاکہ حاصل ہونا والا ڈیٹا زیادہ درست ہو۔
یہ نیا سیٹلائٹ اس سلسلے میں تحقیقات کرے گا کہ زمینی کرہء ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کتنی مقدار انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے داخل ہو رہی ہے اور کتنی مقدار کے موجب قدرتی عوامل ہیں۔ اس مصنوعی سیارے کی مدد سے زمینی سمندروں اور جنگلات پر اس گیس کے اثرات کا مشاہدہ بھی کیا جائے گا، کیوں کہ سمندر اور جنگلات اس گیس کو جذب کرتے ہیں۔
ناسا کے ارضیاتی سائنس کے شعبے کے ڈائریکٹر مائیکل فریلِش کے مطابق، ’’کرہ ء ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی ہمارے سیارے پر توانائی کے توازن میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ وہ اہم ترین عنصر ہے جس سے موسمیاتی تبدیلیوں کے عوامل کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا ہے، ’’OCO-2 مشن کے ذریعے ناسا زمین اور اس کے مستقبل کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے سائنسی بنیادوں پر عالمی مشاہدات میں ایک نئے اور اہم ذریعے کا باعث بنے گا۔‘‘
یہ سیٹلائٹ یونائیڈ الائنس ڈیلٹا ٹو راکٹ کے ذریعے کیلی فورنیا میں واقع وینڈربرگ کے فوجی اڈے سے اپنے مشن پر روانہ ہو گیا اور یہ زمین کی سطح سے سات سو پانچ کلومیٹر دور مدار میں چکر لگاتے ہوئے اپنا کام کرے گا۔ ناسا کے مطابق یہ سیٹلائٹ ان چھ امریکی مصنوعی سیاروں میں سے ایک ہے، جو انتہائی تیز رفتاری سے زمین کے گرد چکر لگاتے ہوئے مسلسل ڈیٹا ارسال کریں گے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ سیٹلائٹ زمین کے گرد ایک مکمل چکر 99 منٹ میں پورا کیا کرے گا۔ اس مصنوعی سیارے کو دو برس کے لیے کام کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے، جس کا بنیادی مقصد کرہء ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کی پیمائش اور سمندروں اور جنگلات میں جذب ہونے والی مقدار کو ناپنا ہے۔ اس سے سائنسدانوں کو یہ معلوم ہو گا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس پورے عمل اور عوامل میں کیا کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔
واضح رہے کہ رواں برس اپریل مں ناسا نے زمینی کرہء ہوائی کے شمالی حصے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے چار سو سے زائد ذرات فی ملین ریکارڈ کیے تھے اور کہا تھا کہ یہ گزشتہ آٹھ لاکھ برسوں کی سب سے زیادہ مقدار ہے۔
محققین کے مطابق ہر برس دنیا بھر میں فیکٹریوں، کارخانوں اور گاڑیوں سے تقریباﹰ چالیس بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کرہء ہوائی میں شامل ہوتی ہے۔ اس میں سے نصف جنگلات اور سمندروں میں جذب ہو جاتی ہے، تاہم نصف مقدار کرہء ہوائی میں قید ہو کر رہ جاتی ہے۔ 468 ملین ڈالر کی لاگت سے تیار کردہ OCO-2 یہ تحقیق بھی کرے گا کہ یہ گیس کس طرح زمینی ماحول میں جذب ہوتی ہے۔