1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی کی فضا بیجنگ اور نئی دہلی سے بھی زیادہ آلودہ

عنبرین فاطمہ، کراچی7 اگست 2014

پاکستان کونسل برائےسائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ سنٹر کے سائنسدانوں نے اپنی ایک تحقیق کے بعد انکشاف کیا ہے کہ کراچی کے بعض علاقوں کی فضا میں لیڈ اور کیڈمیئم جیسی دھاتوں کی مقدار، بیجنگ اور نئی دہلی سے بھی زیادہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1Cqqx
تصویر: Manan Vatsyayana/AFP/Getty Images

پاکستانی حکومت کی وزارت برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے تحت قائم ادارے پاکستان کونسل فار سائنٹیفیک اور انڈسٹریل ریسرچ کے سنٹر فار انوائرمینٹل اسٹڈیز کی طرف سے کراچی میں فضائی آلودگی کی سطح جانچنے کے لیے حال ہی میں ایک مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ شہر کی فضا میں سیسہ یا لیڈ اور کیڈمیئم جیسی مضر صحت دھاتوں کے انتہائی باریک ذرات کی مقدار، عالمی ادارہ برائے صحت اور امریکی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات کے مقرر کردہ معیار سے کہیں زیادہ ہے۔

اس مطالعہ کی مصنفہ اور کونسل کی سینیئر سائنٹیفک آفیسر دردانہ رئیس ہاشمی کے مطابق اس مطالعہ کے لیے کراچی کے 108 مختلف علاقوں سے نمونے اکھٹے کیے گئے۔ ان میں 54 نمونے کمرشل علاقوں، 36 رہائشی،14 صعنتی اور چار کم آبادی والے علاقوں سے حاصل کیے گئے۔ یہ نمونے فضا میں خارج ہونے والی گیسوں اور مائع مادوں پر مشتمل تھے، ’’ہم نے شہر کے مختلف علاقوں میں فضائی آلودگی کا درجہ معلوم کیا ہے۔ ان نتائج کو ہم نے مختلف زونز میں تقسیم کر دیا ہے مثلاﹰ رہائشی علاقوں میں، صنعتی علاقوں میں اور کمرشل علاقوں میں فضائی آلودگی کا درجہ کتنا ہے اور بیک گراؤنڈ علاقے میں کس قدر فضائی آلودگی ہے۔ بیک گراؤنڈ ہم ایسے علاقے کو کہتے ہیں جہاں آبادی بھی بہت کم ہے اور ٹریفک وغیرہ بھی۔ اس تحقیق کے نتائج کا ہم نے عالمی ادارہ صحت اور یونائیٹڈ اسٹیٹس کی انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی گائیڈ لائنز کے ساتھ موازنہ کیا ہے۔‘‘

نئی دہلی کے رہائشی علاقوں میں کیڈمیئم کے ذرات کی مقدار 0.01 سے 0.02 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تک ہے
نئی دہلی کے رہائشی علاقوں میں کیڈمیئم کے ذرات کی مقدار 0.01 سے 0.02 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تک ہےتصویر: AP

دردانہ رئیس کے مطابق اس اسٹڈی میں مختلف علاقوں کی فضا میں 10 مائیکرو میٹر سائز کے انتہائی چھوٹے ذرات کی مقدار معلوم کی گئی۔ ان ذرات کو PM10 کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 10 مائیکرو میٹر یا اس سے چھوٹے ذرات سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہو کر صحت سے متعلق مسائل پیدا کرتے ہیں۔

سنٹر فار انوائرمینٹل اسٹڈیز کے مطالعے کے مطابق ان PM10 میں لیڈ یا سیسے کے ذرات کی مقدار 1.163 مائیکروگرام فی مکعب میٹر پائی گئی۔ جبکہ عالمی ادارہ صحت کیے مطابق یہ مقدار 0.005 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تک ہونی چاہیے۔ اسی طرح کیڈمیئم کی مقدار 0.008 مائیکروگرام فی مکعب میٹر پائی گئی جبکہ محفوظ مقدار 0.005 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تک ہی ہے۔

دنیا میں فضائی آلودگی کے حوالے سے معروف دیگر شہروں کے ساتھ موازنہ بھی سنٹر فار انوائرمینٹل اسٹڈیز کی اس تازہ تحقیق میں کیا گیا ہے۔ اس موازنے کے مطابق نئی دہلی کے رہائشی علاقوں میں کیڈمیئم کے ذرات کی مقدار 0.01 سے 0.02 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تک ہے۔ جبکہ لیڈ کے ذرات کی مقدار 0.27 سے 0.46 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تک ہے۔

چینی دارالحکومت بیجنگ میں کیڈمیئم کے ذرات کی مقدار 0.005 µg/m3 جبکہ لیڈ یا سیسے کے ذرات کی مقدار 0.33 µg/m3 تک ہے۔

شہر کی فضا میں لیڈ اور کیڈمیئم جیسے مادوں کی بڑی مقدار میں موجودگی کے باعث لوگوں میں صحت خصوصاً سانس سے متعلق بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے بھی اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں فضائی آلودگی کو دنیا میں صحتِ عامہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی کے باعث 2012 ء میں دنیا بھر میں اندازاً 70 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔

بیجنگ میں کیڈمیئم کے ذرات کی مقدار 0.005 µg/m3 جبکہ لیڈ یا سیسے کے ذرات کی مقدار 0.33 µg/m3 تک ہے
بیجنگ میں کیڈمیئم کے ذرات کی مقدار 0.005 µg/m3 جبکہ لیڈ یا سیسے کے ذرات کی مقدار 0.33 µg/m3 تک ہےتصویر: Reuters

دردانہ رئیس کے مطابق سانس کے ذریعے کاربن مونو آکسائیڈ، لیڈ اور کیڈمیئم پیھپڑوں میں جانے کی بدولت نہ صرف سانس اور پھیپڑوں سے متعلق بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ آنکھوں اور دل کے امراض بھی عام ہوتے جا رہے ہیں۔ جبکہ اچانک ہونے والی اموات کے پیچھے کارفرما عوام میں سے ایک اہم مسئلہ بھی ہماری فضا میں خطرناک ذرات کی مقدار میں اضافہ ہی ہے۔

فضائی آلودگی میں اضافے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے دردانہ رئیس کا کہنا تھا: ’’کراچی میں گاڑیوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس کے بعد انڈسٹریل امیشن ہے جس کی وجہ سے فضائی آلودگی کا لیول بڑھ گیا ہے۔ کیڈمیئم گاڑیوں میں استعمال ہونے والی بیٹریوں میں بھی ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں چونکہ پرانی بیٹریاں استعمال ہوتی ہیں تو ان کا پانی اکثر لیک ہو رہا ہوتا ہے، سڑکوں پر گِر رہا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے بالکل بھی احتیاط نہیں کی جاتی اور نہ ہی ہینڈلنگ میں احتیاط کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پرانی گاڑیوں اور ان کی نامناسب دیکھ بھال کے باعث فضا میں کاربن مونو آکسائیڈ بہت پھیل رہی ہے کیونکہ ان کے انجنوں میں فیول جلنے کا عمل درست طور پر نہیں ہوتا۔‘‘

دردانہ رئیس کے مطابق فضائی آلودگی میں اضافے اور اس سے درپیش خطرات کے حوالے سے ایک قابل تشویش بات عوام میں اس حوالے سے شعور کا نہ ہونا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کراچی کی زیادہ تر آبادی کو نہ تو یہ معلوم ہے کہ فضائی آلودگی کے نقصانات کیا ہے اور نہ ہی یہ کہ اسے کم کرنے کے لیے وہ کس طرح اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ، کراچی