1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں ساتویں عالمی اردو کانفرنس جاری

رفعت سعید، کراچی17 اکتوبر 2014

آرٹ کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام ساتویں عالمی ادبی کانفرنس جمعرات سولہ اکتوبر سے جاری ہے۔ اس چار روزہ اجتماع میں پڑوسی ممالک بھارت اور ایران سمیت دنیا بھر سے ادیب، دانشور اور شعرا کرام شرکت کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DWuG
ساتویں عالمی ادبی کانفرنس کے پہلے روز اسٹیج پر دیگر نامور ادبی شخصیات کے ساتھ ساتھ ناول و افسانہ نگار انتظار حسین بھی (دائیں سے دوسرے) نظر آ رہے ہیں
ساتویں عالمی ادبی کانفرنس کے پہلے روز اسٹیج پر دیگر نامور ادبی شخصیات کے ساتھ ساتھ ناول و افسانہ نگار انتظار حسین بھی (دائیں سے دوسرے) نظر آ رہے ہیںتصویر: DW/R. Saeed

آرٹس کونسل آف پاکستان کے سبزہ زار پر منعقدہ افتتاحی تقریب میں ملک کے سب سے بڑے مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی نئی کتاب ’شامِ شعرِ یاراں‘ کی رونمائی بھی کی گئی۔ ممتاز اداکار اور براڈکاسٹر ضیاء محی الدین نے مشتاق احمد یوسفی کی تحریر کو اپنی آواز سے سجاتے ہوئے مزاح نگاری کے اِس بے تاج بادشاہ کو خراج تحسین پیش کیا۔

معروف شاعر امجد اسلام امجد نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں کہا کہ ’زندگی میں کچھ چیزیں ہیں، جنہیں انسان بڑے فخر کےساتھ پیش کرتا ہے تو یوسفی صاحب کے ساتھ محبت کا چالیس سال پرانا رشتہ ہے‘۔

ساتویں عالمی ادبی کانفرنس کے ایک سیشن کا منظر، حاضرین ہمہ تن گوش ہیں
ساتویں عالمی ادبی کانفرنس کے ایک سیشن کا منظر، حاضرین ہمہ تن گوش ہیںتصویر: DW/R. Saeed

کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پیرزادہ قاسم کا کہنا تھا کہ عالمی اردو کانفرنس گذشتہ سات برسوں کے دوران دنیا بھر میں اردو زبان و ادب کا ایک اہم حوالہ بن چکی ہے اور مستقبل میں آنے والوں پر یہ ذمہ داری عائد ہو گئی ہے کہ وہ اس روایت کو جاری و ساری رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں ادب و ثقافت اب ترجیحات میں شامل نہیں رہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو ہماری ادبی سمجھ بوجھ ختم ہو جانے کا بھی خدشہ ہے۔

مشہور شاعرہ زہرہ نگاہ کا کہنا تھا کہ اردو کانفرنس نے شہر قائد کو نئی پہچان دی ہے:’’پوری دنیا میں ہمارے شہر کراچی کی خبریں خراب ہی خراب جاتی ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ اسی شہر میں اتنی بڑی اردو کانفرنس ہو رہی ہے، جس میں بڑے بڑے لوگ شریک ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اور مجمعے کو دیکھ کر بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘

کانفرس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے ادیبوں اور شاعروں نے کانفرنس میں مقالے پڑھے۔ بھارت سے آئے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہٴ اردو کے سربراہ قاضی افضال حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ زبان انسان کی افرادی اور معاشرتی ضرورت ہی نہیں بلکہ ہمارے اظہار و بیان کا بھی اہم ترین ذریعہ ہے۔ پاکستان کے مایہ ناز ادیب انتظار حسین کا کہنا تھا کہ انہیں پہلی کانفرنس کے بارے میں سن کر تعجب ہوا تھا کہ کراچی جیسے شہر کے ماحول میں یہ ممکن کیسے ہو گا لیکن سات برس سے مسلسل کانفرنس کا انعقاد جاری ہے اور اب یہ کانفرنس لاہور اور اسلام آباد تک جا پہنچی ہے۔

شاعر افتخار عارف، براڈکاسٹر ضیاء محی الدین، شاعرہ زہرہ نگاہ، کالم نگار عطاء الحق قاسمی اور دیگر ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی (درمیان میں) کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے
شاعر افتخار عارف، براڈکاسٹر ضیاء محی الدین، شاعرہ زہرہ نگاہ، کالم نگار عطاء الحق قاسمی اور دیگر ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی (درمیان میں) کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئےتصویر: DW/R. Saeed

کانفرنس کے منتظم اور آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زبان کی تہذیب اور اقدار ہوتی ہیں اور ہم نے اردو کی تہذیب اور قدروں کا اجتماع منعقد کیا ہے۔ فیض اور صادقین جیسی شخصیات اردو سے وابستہ رہی ہیں، ہمارا کام اس دور میں ایسے لوگوں کو جمع کرنا ہے اور ان کے ذریعے اپنی تہذیب کو متعارف کرانا ہے۔

کانفرنس کے پہلے روز کا اختتام معروف کلاسیکل ڈانسر شیما کرمانی کی دل موہ لینے والی پرفارمنس پر ہوا۔ لیکن اردو کے دیوانوں کے لیے آئندہ تین دن تک جاری رہنی والی نشستوں میں ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ دوسرے روز اردو کے جدید ناول اور افسانے، اردو کو درپیش مسائل اور اس کے مستقبل، بیاد رفتگاں، اردو کی نئی بستیاں اور تراجم کی روایت کے حوالے سے اجلاس منعقد ہو رہے ہیں۔ صفیہ اختر اور جاوید اختر کے نام ایک شام میں جاوید اختر کے شعری مجموعے لاوا کی تقریب اجراء بھی منعقد کی جائے گی۔ اس کے علاوہ اردو اور پاکستانی زبانوں کے رشتوں، ذرائع ابلاغ اور زبان اور ترقی پسند تحریک کے اردو ادب پر اثرات کے عنوانات پر مباحثوں کا بھی انعقاد ہو گا۔ تیسرے روز کا اختتام ایک عالمی مشاعرے پر ہو گا جبکہ آخری روز اختتامی تقریب سے پہلے حالی و شبلی کے جشن صد سالہ کے موضوع پر ایک مذاکرہ بھی ہو گا۔