1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کراچی آپریشن ناکام رہا ہے‘: ہیومن رائیٹس کمیشن

رفعت سعید /کراچی25 جولائی 2014

ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان نے رواں ہفتے کراچی آپریشن کے بارے میں اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ سال ستمبر سے شروع ہونے والا آپریشن اپنے مطلوبہ مقاصد اور اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ciko
تصویر: DW/S.Shams

ایچ آر سی پی کے جنرل سیکریٹری آئی اے رحمٰن نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب میں کراچی آپریشن کی رپورٹ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شہر قائد میں قتل اور اغوا کی وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ جیسے شہر میں حکومتی رٹ موجود ہی نہیں۔

پریس کانفرنس کے موقع پر آئی اے رحمٰن کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں کو کراچی آپریشن پر تحفظات ہیں جبکہ شہر میں انتہا پسندی کا خطرہ بھی منڈ لارہا ہے،، پہلے پورے شہر سے 80 لاکھ روپے کا بھتہ جمع ہوتا تھا، اب صرف ایک علاقے سے ایک کروڑ روپے بھتہ جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کے لئے صرف 26 ہزار پولیس اہلکار موجود ہیں اور ان میں سے نصف وی آئی پیز کی حفاظت پر مامور ہیں۔ اس تناسب سے ایک پولیس اہلکار 1525 شہریوں کو تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ 2012 ء میں ایک سو اٹھارہ، اس سے اگلے سال 194پولیس مقابلے رپورٹ ہوئے۔ لیکن، رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں ہی 372 پولیس مقابلے ہوئے۔

ایچ آر سی پی کی رپورٹ پولیس اورحکومت کے تمام دعوں کے برعکس ہے جبکہ دوسری جانب حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مزاکرات کا ایک نتیجہ کراچی میں جاری آپریشن میں وہ نرمی تھی جس کا اعتراف کراچی پولیس کے سربراہ غلام قادر تھیبو نے ڈوئچے ویلے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ کراچی پولیس پر پچھلے دنوں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق HRCP نے الزام لگایا تھا کہ کراچی آپریشن کے دوران پولیس کا کردار نہ صرف یک طرفہ نظر آتا ہے بلکہ زیادہ تر تو قانون کی حکمرانی ہی نظر نہیں آتی۔

Pakistan Angriff auf Marinestützpunkt NO FLASH
کراچی میں دہشت گردی کے خطرات ابھی بھی پہلے جتنے ہی ہیں: HRCPتصویر: picture alliance/dpa

پچھلے دنوں جاری کی گئی ایک رپورٹ میں HRCP نے کہا ہے کہ ان کی ایک ٹیم نے جولائی کے مہینے میں کراچی آپریشن کے زمینی حقائق جاننے کی کوشش میں کراچی کی سول سوسائٹی، میڈیا ، سیاسی جماعتوں، اقلیتو ں کے رہنماﺅں، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ملاقاتیں کیں ۔ ان ملاقاتوں میں HRCPکے مطابق ان کی ٹیم نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ کراچی آپریشن اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ ان کی رپورٹ میں اس ناکامی کی وجہ حکومت اور سیاسی جماعتوں پر ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کا کردار کراچی کے حوالے سے قابلِ مذمت ہے اس لیے ان میں سے کسی کو بھی کراچی سے ہمدردی نہیں نظر آتی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کراچی کے دورے کرنا نا کافی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ یہاں کے مسائل کو حل کرنے میں زیادہ سنجیدگی دکھائیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آپریشن کی نگرانی کسی آزاد ادارے کے ذمے ہونی چاہیے تھی جو یہ دیکھ سکتا کہ آیا پولیس کا کردار یک طرفہ تو نہیں۔ رپورٹ نے کہا ہے کہ کراچی پولیس نے عمومی طور پر وہ کارکردگی نہیں دکھائی جو ایک آپریشن کے دوران ہونی چاہیے تھی۔

لیکن کراچی پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ جس دوران حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات جاری تھے، کراچی میں طالبان کے ٹھکانوں پر آپریشن نہیں کیا گیا۔ غلام قادر تھیبو کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد، آپریشن ضربِ عضب کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی میں بھی حفاظتی اقدامات سخت کر دیے گئے ہیں ،خاص طور پر کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد۔ HRCP کی رپورٹ میں رینجرز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رینجرز کے افسران نے ٹیم سے ملنے سے انکار کردیا جب کہ لوگوں کو اس آپریشن میں رینجرز سے شکایات بہت ہیں۔

Impressionen aus Karachi Pakistan
کراچی میں آئے دن ہنگامے ہوتے رہتے ہیں جن سے شہری متاثر ہو رہے ہیںتصویر: DW

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی 70 کے لگ بھگ خاندان ایسے ہیں جن کا کوئی نہ کوئی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں اس صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور لوگ انسانی حقوق کی اس پامالی سے بہت پریشان ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان خاندانوں نے HRCPکی ٹیم سے رابطہ کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ لاپتہ ہونے والے افراد کو عموماً سرکاری ایجنسیوں نے اٹھایا ہے اور ان افراد کے موبائل فون پر موصول ہونے والی آخری کال زیادہ تر کسی حساس ادارے کے افسر کی رہی ہے۔
کراچی پولیس کا البتہ کہنا ہے کہ ہر چند HRCP کی ٹیم نے پولیس کے اعلیٰ اہلکاروں سے ملاقاتیں کیں تھیں لیکن انہوں نے ان شکایات پر ان سے کوئی گفتگو نہیں کی اکہ ور یہ رپورٹ یک طرفہ اور خلافِ واقعہ ہے۔

غلام قادر تھیبو کا کہنا ہے کہ اب صورتحال خاصی مختلف ہے۔ اب نہ صرف وہ ادارے اور افراد جو دہشتگردی کا ممکنہ نشانہ بن سکتے ہیں انہیں چوکس کیا گیا ہے بلکہ پولیس کی نفری کے حوالے سے بھی اقدامات کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ نئی نفری کی بھرتی اور تربیت میں خاصہ وقت درکار تھا لہٰذا سابق فوجیوں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔

رپورٹ نے اس بات کو مانا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امنِ عامہ کی صورتحال بہتر ہوئی ہے لیکن یہ بھی کہا گیا ہے عام طور پر لوگ اس صورتحال پر مطمئن نہیں ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ حقائق اورعوام کی آراء میں اختلاف ہو سکتا ہے۔