1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کامن ویلتھ گیمز: پاکستان پرتھ سے گلاسگو تک

طارق سعید، لاہور21 جولائی 2014

کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان نے پہلی بار انیس سو چوّن میں حصہ لیا مگر اس کے آٹھ سال بعد پرتھ میں ہونیوالے گیمز پاکستانی کھیلوں کا بام عروج تھے، جن میں آٹھ طلائی تمغے ملک کے سینے پر سجے۔

https://p.dw.com/p/1Cfym
پلوشہ کا کہنا تھا کہ بیڈمنٹن فیڈریشن نے انہیں لاہور کے تربیتی کیمپ میں ہر ممکن سہولت فراہم کی اور کامن ویلتھ گیمز میں انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گاتصویر: Tariq Saee

پاکستان نے کامن ویلتھ گیمز کی تاریخ میں سب سے زیادہ سینتیس میڈل ریسلنگ میں جیتے ہیں جن میں بیس طلائی تمغے بھی شامل ہیں۔

پیرکو پاکستان کا پینسٹھ رکنی دستہ بیسویں کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کے لیے اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو روانہ ہو رہا ہے اور ایک مرتبہ پھر اظہر حسین اور محمد انعام جیسے ریسلرز ہی اس کی امیدوں کا مرکز ہوں گے۔

ریسلنگ کے علاوہ پاکستانی کھلاڑی باکسنگ، بیڈمنٹن، ایتھلیٹکس، جمناسٹک، شوٹنگ، ٹیبل ٹینس، سوئمنگ اورویٹ لفٹنگ میں حصہ لیں گے۔

Shabe Asra Pakistan Athletin
پاکستانی دستے میں سب سے کم عمر ایتھلیٹ فیصل آباد کی سترہ سالہ صاحب عصریٰ سو میٹر دوڑ میں حصہ لیں گیتصویر: Tariq Saee

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے دو حریف دھڑوں کے درمیان جاری کشمکش کے باعث تین روز پہلے تک گلاسگو گیمز میں پاکستان کی شرکت مشکوک تھی مگر آخری موقع پر لاہور ہائی کورٹ نے ملکی دستے کو اسکاٹ لینڈ روانگی کی اجازت دے دی۔ اس غیر یقینی صورتحال میں پاکستانی ایتھلیٹس کی تیاری بری طرح متاثر ہوئی۔

دلی کامن ویلتھ گیمز میں طلائی تمغہ جیتنے والے محمد انعام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کامن ویلتھ گیمز کی تیاریوں کے لیے چار سال درکار ہوتے ہیں مگر ہم اولمپک ایسو سی ایشن کی لڑائی کی وجہ سے صرف ڈیڑھ ماہ کی علامتی ٹریننگ کر سکے۔ انہوں نے دوسری ٹیمیں دو ہفتے پہلے چلی گئی ہیں تاکہ موسم سے ہم آہنگ ہو سکیں مگر پاکستان میں بد انتظامی کی انتہا ہے۔ حکمران کرکٹ کے علاوہ سب گیمز کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

انعام نے کہا کہ پاکستانی ریسلرز نے ذاتی طور پر اس ایونٹ کی تیاری ضرور کی ہے اور اس بار بھی وہ تمام مشکلات کے باوجود اچھے نتائج کے لیے پر امید ہیں۔

Der pakistanische Schwimmer Sikander Khan
گلاسگو گیمز میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز پاکستانی تیراکی ٹیم ہو گی۔ جس میں سیف گیمز چمپین کرن خان اپنے بڑے بھائی سکندر اور چھوٹی بہن بسمیٰ خان کے ہمراہ ایکشن میں نظر آئیں گیتصویر: DW/T.Saee

پاکستانی بیڈمنٹن فیڈریشن پر عائد عالمی پابندی ختم ہونے کے بعد پاکستانی بیڈمنٹن ٹیم کو کسی بین لاقوامی ٹورنامنٹ میں پہلی بار شرکت کا موقع مل رہا ہے۔پاکستانی اسکواڈ میں شامل کراچی کی باسی خاتون شٹلر پلوشہ بشیر کہتی ہیں بیڈمنٹن میں پاکستان کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی جانب یہ پہلا قدم ہوگا۔

پلوشہ کا کہنا تھا کہ بیڈمنٹن فیڈریشن نے انہیں لاہور کے تربیتی کیمپ میں ہر ممکن سہولت فراہم کی اور کامن ویلتھ گیمز میں انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔

پاکستانی دستے میں سب سے کم عمر ایتھلیٹ فیصل آباد کی سترہ سالہ صاحب عصریٰ سو میٹر دوڑ میں حصہ لیں گی۔ صاحب عصریٰ جو سال اوّل کی طالبہ ہیں، عالمی ایونٹ میں شرکت کے لیے جتنی پرجوش ہیں، اتنی ہیں بے چین بھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نروس ضرور ہوں اور دوڑ کے دن کا شدت سے انتظار ہے۔

گلاسگو گیمز میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز پاکستانی تیراکی ٹیم ہو گی۔ جس میں سیف گیمز چمپین کرن خان اپنے بڑے بھائی سکندر اور چھوٹی بہن بسمیٰ خان کے ہمراہ ایکشن میں نظر آئیں گی۔ یہ عالمی کھیلوں میں پہلا موقع ہے جب تین بہن بھائی ایک ساتھ پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ اس بارے میں کرن اوربسمیٰ کے پیراک بھائی سکندر خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہمارا خاندان ہم تینوں کی سلیکشن پر بہت مسرور ہے، ’’میں اور کرن پہلے بھی انٹرنینشل ٹورنامنٹ کھیل چکے ہیں مگر چھوٹی بہن بسمیٰ پہلی بار بڑے ایونٹ میں کھیلنے کے لیے بہت پرجوش ہے۔‘‘

اولمپک ایسو سی ایشن کے جھگڑے کے باعث بر وقت انٹری نہ کرائے جانے کے سبب پاکستان ہاکی ٹیم کامن ویلتھ گیمز میں بھی شرکت سے محروم رہے گی البتہ باکسنگ میں میڈل کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔