1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کاسینی کے سیارہ زحل کے مدار میں 10 برس

افسر اعوان3 ستمبر 2014

ہمارے نظام شمسی کے دوسرے سب سے بڑے سیارے کے گرد گردش کرتا خلائی جہاز کاسینی گزشتہ 10 برسوں کے دوران اس سیارے سے متعلق بہت سے راز کھول چکا ہے۔ کاسینی کو 1997ء میں میں اس مشن پر روانہ کیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1D5x3
تصویر: picture-alliance/NASA/DLR

یہ خلائی جہاز سال 2004ء کے موسم گرما میں سیارہ زحل کے مدار میں پہنچا تھا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق یہ پراجیکٹ 13 برس پر محیط ہے اور اس کے خاتمے تک اس پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ دو بلین امریکی ڈالرز کے برابر ہے۔

جرمن ایرو اسپیس سنٹر DLR کے انسٹیٹیوٹ فار پلینیٹری اسٹڈیز سے منسلک رالف یاؤمن کے مطابق کاسینی سے حاصل ہونے والی معلومات، ’’نظام شمسی کے بارے میں تحقیق میں اہم ہیں۔‘‘ یاؤمن، کاسینی کے ’وژیوئل اینڈ انفراریڈ میپنگ سپیکٹرومیٹر ٹیم‘ کے رُکن ہیں اور سطحوں اور فضاؤں کی کیمیائی ترکیب معلوم کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔

کاسینی مشن کی سربراہی امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کے پاس ہے جبکہ یورپی خلائی ایجنسی (ESA) کی طرف سے اس مشن کے لیے ہوئیگنز نامی پروب تیار کیا گیا تھا جو زحل کے ایک چاند ٹائٹن Titan پر 2005ء میں اُترا تھا۔

زحل کی سطح پر فواروں کی شکل میں پھوٹتے پانی کا مشاہدہ کیا گیا ہے جو جمی ہوئی سطح سے پھوٹ رہے ہیں
زحل کی سطح پر فواروں کی شکل میں پھوٹتے پانی کا مشاہدہ کیا گیا ہے جو جمی ہوئی سطح سے پھوٹ رہے ہیںتصویر: picture-alliance/AP

DLR کی طرف سے ایک ایسا آلہ بھی فراہم کیا گیا تھا جو ہوئیگننز کے ٹائٹن پر اترنے کے بعد وہاں پر موجود ذرات کی رفتار حجم معلوم کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

کاسینی سے حاصل ہونے والی معلومات کا تجزیہ کرنے والے سائسندانوں نے دریافت کیا ہے کہ ٹائٹن پر ہماری زمین کی طرح مائع کی گردش کا ایک نظام موجود ہے۔ تاہم وہاں پانی کی جگہ مائع میتھین موجود ہے۔ بارش کی طرح یہ فضاء سے میتھین کے سمندر میں گرتی ہے۔ خیال رہے کہ میتھین منفی 182 ڈگری سینٹی گریڈ پر مائع شکل اختیار کر لیتی ہے۔

تازہ ترین دریافت بادلوں کی حرکت ہے جن کا تعلق ٹائٹن کے موسموں سے ہے۔ زمین کی طرح ٹائٹن بھی اپنے محور کے گرد گردش کرتا ہے جس سے موسم جنم لیتے ہیں۔ یاؤمن کے مطابق، ’’ٹائٹن کے موسم زمین کے مقابلے میں کہیں طویل ہیں جس کی وجہ سورج سے بہت زیادہ دوری ہے۔‘‘ زمین پر تین ماہ دورانیے کے ایک موسم کی بجائے ٹائٹن پر یہ موسم ساڑھے سات برس پر محیط ہے۔ اس لیے اب تک صرف ایک ہی موسم کے بارے میں معلومات حاصل ہو سکی ہیں۔

یاؤمن کے مطابق، ’’اس وقت ہم موسم کی تبدیلی کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہم دیکھ رہے ہیں کہ مائع کا سائیکل اور موسم کی تبدیلی ٹائٹن پر کیا اثرات مرتب کر رہے ہیں۔‘‘

کاسینی سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق زحل کی سطح پر فواروں کی شکل میں پھوٹتے پانی کا مشاہدہ کیا گیا ہے جو جمی ہوئی سطح سے پھوٹ رہے ہیں۔ یاؤمن کے مطابق، ’’جب ایک سیارے پر چٹانی سطح اور پانی موجود ہو تو اس کا نتیجہ موسموں کی صورت میں نکلتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’جب پانی اور نیوٹریئنٹس موجود ہوں تو پھر ہم خود سے یہ سوال کر سکتے ہیں کہ کیا وہاں زندگی بھی ہو سکتی ہے۔‘‘