1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈی ڈبلیو اکیڈمی کے تعاون سے پشاور میں صحافیوں کے لیے ٹراما سینٹر

دانش بابر، پشاور26 نومبر 2014

پاکستان کے شورش زدہ علاقوں میں تنازعات کے دوران صحافیوں کی استعداد کاری اور نفسیاتی مدد کے لیے پشاور میں ایک ٹراما سینٹر قائم کیا گیا ہے۔ ڈی ڈبلیو اکیڈمی کے تعاون سے قائم کردہ اس سینٹر میں مفت خدمات فراہم کی جائیں گی۔

https://p.dw.com/p/1DtrL
تصویر: DW/D. Baber

صوبہ خیبر پختونخوا اور اس قریب واقع قبائلی علاقاجات گزشتہ قریب ایک دہائی سے حالت جنگ سے گزر رہے ہیں۔ اس جنگ میں جہاں عام شہری بری طرح متاثر ہورہے ہیں وہی ان علاقوں میں پیش آنے والے ناخوشگوار لمحات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی بھی اس سے نفسیاتی طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔

جنگ زدہ ماحول اور علاقوں میں صحافتی خدمات سرانجام دینے والے صحافیوں کے نفسیاتی مسائل اور ذہنی دباﺅ کے علاج کے لیے جرمن ادارے ڈی ڈبلیو کی اکیڈمی اور پشاور یونیورسٹی کے باہمی اشتراک سے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں کومپی ٹینس اینڈ ٹراماسینٹر فار جرنلسٹس (سی ٹی سی جے) کے نام سے ملک کے پہلے ٹراما سینٹر (Trauma Centre) کا باقاعدہ طور پر افتتاح کیاگیا ہے۔ اس ٹراماسینٹر میں پشاور یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات اور شعبہ جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکشن کے ساتھ ساتھ پشاور پریس کلب کی مدد بھی حاصل ہوگی۔

Trauma Center for Journalists in Peshawar Pakistan
پاکستان میں ڈی ڈبلیو اکیڈمی کی سربراہ کیرن شیڈلرتصویر: DW/D. Baber

سی ٹی سی جے کے بارے میں شعبہ جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکشن کے چیئرمین ڈاکٹر الطاف اللہ خان کا ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس ٹراما سینٹر کے قیام کی اس خطے کے صحافیوں کے لیے بہت ضرورت تھی، خطے میں پائی جانی والی غیر یقینی صورتحال اور خراب حالت کی وجہ سے جہاں عام عوام ذہنی مریض بن چکے ہیں وہاں صحافیوں کے ذہنوں پر بھی منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ ان کا اس ٹراما سینٹر کے مقصد کے بارے میں مزید کہنا تھا، ”ہم چاہتے ہیں کہ تمام صحافی ایک صحت مند زندگی گزاریں، ان کی گھریلو زندگی اچھی ہو اور دوسرا یہ کہ جو کام وہ کرتے ہیں، اگر وہ یہ لوگ ذہنی دباﺅ اور تناﺅ کا شکار ہوکر کریں گے تو یقینا اس سے وہ کام بھی متاثر ہوگا اور اس طرح یہ ٹراما اور زیادہ ہوگا۔“

ڈاکٹر خان کا مزید کہنا ہے کہ اس ٹراما سینٹر میں جرنلزم ڈپارٹمنٹ کا بہت اہم کردار ہوگا کیونکہ تقریبا تمام صحافی اسی ادارے سے پڑھے ہوئے ہیں تو اس وجہ سے ان کی نیٹ ورکنگ یہاں سے آسانی کے ساتھ ہوسکے گی۔

شعبہ نفسیات کی چیئر پرسن ڈاکٹر ارم ارشاد کا کہنا ہے کہ بدامنی سے متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والے قریب70 فیصد صحافی نفسیاتی مسائل سے دوچار ہیں ان کو اس سینٹر میں آگاہی فراہم کی جائےگی۔ اس کے علاوہ شدید ذہنی تناؤ سے بچانےکے لیے ان کی باقاعدہ طور پر کونسلنگ بھی کی جائے گی تاکہ وہ نفسیاتی طور پر مضبوط ہوجائیں۔ وہ کہتی ہے کہ اس ٹراما سینٹر کی ضرورت ناصرف فیلڈ میں لمبے عرصے سے کام کرنے والے صحافیوں کے لیے ہے بلکہ نوجوان جرنلسٹس کے لیے بھی یہ بہت ضروری ہے، ”وہ جرنلسٹس جو کم عمر ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ ہم ایسی جگہوں پر جا کر کام کریں، جو آفت زدہ ہیں یا جہاں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوچکے ہیں، تو وہ پہلے سے حفاظتی تدابیرسے آگاہ ہوجائیں تاکہ وہ کسی قسم کے ذہنی دباﺅ کا شکار نہ ہوں۔“

Trauma Center for Journalists in Peshawar Pakistan
اس ٹراماسینٹر میں پشاور یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات اور شعبہ جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکشن کے ساتھ ساتھ پشاور پریس کلب کی مدد بھی حاصل ہوگیتصویر: DW/D. Baber

کومپی ٹینس اینڈ ٹراما سینٹر فار جرنلسٹس بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان میں ڈی ڈبلیو اکیڈمی کی کنٹری منیجر کیرن شیڈلر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں قبائلی علاقوں، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور کراچی کے صحافی سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں، ان کے ادارے (ڈی ڈبلیو اکیڈمی) نے پشاور کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ اس سے ناصرف پختونخوا بلکہ فاٹا کے صحافیوں تک بھی رسائی حاصل ہوگی، وقت کے ساتھ ساتھ ملک کے دوسرے خطوں میں بھی اس طرح کے سینٹرز کھولے جائیں گے۔ اس پراجیکٹ کے کل دورانیے کے بارے میں ان کا کہنا تھا، ”یہ پراجیکٹ تقریبا ساڑھے تین سال جاری رہے گا، ہوسکتا ہے کہ یہ اس سے بھی زیادہ دیر تک رہے ، ہماری یہ کوشش ہوگی کہ یہ خود کام کرے، ایک وقت ایسا آئے کہ پھر اس کو ہماری مدد کی ضرورت نہ ہو۔“

خیبر یونین آف جرنلسٹس پشاور کے صدر نثار محمود کہتے ہیں کہ ڈوئچے ویلے واحد ادارہ ہے جس نے صحافیوں کے نفسیاتی مسائل کی طرف توجہ دی ہے۔ اس ٹراما سینٹر میں علاج معالجے کے سہولیات مفت فراہم کی جائیں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈی ڈبلیو، شعبہ جرنلزم اور شعبہ نفسیات کا یہ ایک عمدہ باہمی اشتراکی پروگرام ہے جس سے صحافی برادری کو بہت فائدہ پہنچے گا اور وہ اس بات پر بہت زیادہ خوش ہیں اور ان تینوں اداروں کا بہت زیادہ شکرگزار ہیں۔