1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ڈھائی سو روپے ميں مہينے بھر کی بجلی‘

دانش بابر، پشاور7 اکتوبر 2014

پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے ليے حکومتی کوششیں کسی سے چھپی نہیں ہیں۔ اس وقت قريب 2500 ميگا واٹ بجلی کی کمی ہے، جس سبب شہری علاقوں میں چھ تا آٹھ جبکہ دیہی علاقوں میں دس سے بارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/1DRYY
تصویر: DW/D. Baber

حکومت اس بحران کو ختم کرنے کے ليے مختلف منصوبے بنا رہی ہے۔ پاکستان میں، خصوصا شمالی علاقہ جات میں پانی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے کافی مواقع موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ شانگلہ يا سوات کے گاؤں لیلونی کے ایک رہائشی سید آب حیات شاہ نے اپنی مدد آپ کے تحت 1973ء میں اپنے گاؤں میں ایک چھوٹا ’ہائڈرو‘ پاور پلانٹ لگایا تھا، جس سے اب تک نہ صرف ان کے اپنے گھر کی بجلی کی ضرورت پوری ہو رہی ہے بلکہ اس سے گاؤں کے ديگر کئی گھروں کو بھی بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔

آب حیات شاہ
آب حیات شاہتصویر: DW/D. Baber

ایک غیر تعلیم یافتہ جیپ ڈرائیور اور گاڑیوں کے مستری 78سالہ سید آب حیات شاہ اپنی اس ایجاد کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایک دن جیپ کے انجن پر غور کرتے ہوئے انہوں نے پانی سے بجلی پیدا کرنے کی ٹھان لی اور اس کے ليے انہوں نے سب سے پہلے جیپ کے ڈائینمو یا جنریٹر کا استعمال کیا اور ٹربائن کے ليے لکڑی سے بنائے گئے پنکھے کو 17فٹ کی بلندی سے گرنے والے پانی سے اتنی تیزی سے گھمایا کہ اس کی حرکت سے ان کے گاؤں میں پہلی مرتبہ بجلی سے 12ووٹ کا ايک بلب روشن ہوا۔ اپنے موجودہ مائیکرو ہائیڈل پاور کے بارے میں حیات شاہ کا کہنا ہے۔ ’’اس وقت ہماری صرف ایک مشین سے قریب کے چالیس گھروں کو بجلی مہیا کی جا رہی ہے، جس سے لوگ بلب اور پنکھوں کے ساتھ ساتھ فریج، ٹیلی وژن، واشنگ مشین اور سلائی کی مشین چلاتے ہیں۔‘‘


حیات شاہ کے بڑے صاحب زادے سید انور شاہ کا کہنا ہے کہ موجودہ مشین پر کل پانچ لاکھ روپے تک لاگت آئی ہے، جس سے آسانی کے ساتھ 15کلو واٹ تک بجلی حاصل کی جا رہی ہے۔ وہ اپنے والد اور ان کی ایجادات کے بارے میں مزید کہتے ہیں۔ ’’سب سے پہلے میرے والد نے لکڑی کا ٹربائن بنایا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ اس کی جگہ لوہے کا ايک ٹربائن لگایا۔ بعد ازاں اس کو ايک مکمل پلانٹ میں تبدیل کیا گیا۔ اب اس سے بجلی کے ساتھ ساتھ آری مشین، چکی، مکئی کی چکی،کپاس مشین، فرنیچر فیکٹری سب چلتے ہیں۔ اس کے علاوہ پورے سوات میں دریاؤں کے اوپر چلنے والی چیئر لفٹ بھی میرے والد ہی کی ایجاد ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ان کے علاقے کے زیادہ تر لوگ حيات شاہ ہی کی پیدا کردہ بجلی استعمال کر رہے ہیں کیونکہ واپڈا کے مقابلے میں ان کا ماہانہ بل کافی کم ہوتا ہے۔ جہاں لوگ واپڈا کو دو سے تین ہزار روپے ماہانہ ادا کرتے ہیں وہاں حيات شاہ ان صارفین سے 25 روپے فی بلب کے حساب سے سے زیادہ سے ذیادہ 250روپے ماہانہ وصول کرتے ہیں۔ اور اس کے ليے انہوں نے باقاعدہ ملازمین رکھے ہوئے ہیں جو سپلائی لائنز کی دیکھ بھال اور ضرورت پڑنے پر مرمت وغيرہ کا کام کرتے ہیں۔ انور شاہ کہتے ہیں کہ ان کے والد کے بنائے ہوئے تینوں پلانٹ سے ماہانہ 90ہزار تک آمدنی حاصل ہو رہی ہے۔
اسی گاؤں کے ایک اور رہائشی خالد خان کا کہنا ہے کہ ان کے گھر میں عرصہ دراز سے MHP سے پیدا کی جانے والی بجلی استعمال ہو رہی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ابھی گاؤں میں واپڈا کی بجلی بھی آ گئی ہے لیکن لوگ پھر بھی MHPکی بجلی استعمال کرتے ہیں وہ اس ليے کيونکہ لوڈشیڈنگ بہت زیادہ ہوتی ہے اور آب حیات نے دور دور تک پہاڑوں کی چوٹیوں تک بجلی پہنچا دی ہے۔ یہ بجلی 24 گھنٹے فراہم کی جاتی ہے اور اس کے وولٹیج بھی ٹھیک ہوتے ہيں۔‘‘

آب حیات شاہ اپنے صاحب زادے کے ہمراہ
آب حیات شاہ اپنے صاحب زادے کے ہمراہتصویر: DW/D. Baber

آب حیات کا کہنا ہے کہ مائکرو پاؤر پلانٹ بہت ہی سادہ طریقے سے کام کرتا ہے۔ اس میں صرف پانی کی اونچائی، مقدار اور پانی کے پائپ کے زاویے کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ انہوں نے 1973ء سے اب تک سوات، بونیر، چترال، دیر اور متعدد دوسرے علاقوں میں چھوٹے بڑے ہزاروں پلانٹ لگانے میں لوگوں کی مدد کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس مد میں سرمایہ کاری کرے تو صرف ان ہی کے گاؤں میں اور ایک ہی نالے سے چھ تا دس میگا واٹ تک بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جبکہ پورے دریائے سوات پر بے شمار مقامات پر مائکرو ہائیڈل پاور لگائے جاسکتے ہیں، جس سے ملک میں بجلی کی کمی کو ہمیشہ کے ليے ختم کیا جا سکتا ہے۔


آب حیات کا کہنا ہے کہ 1975ء میں ان کے پلانٹ کے بارے میں پاکستان کے اخباروں میں ایک خبر شائع ہوئی تھی، جس کے بعد ان کو سابق صدر جرنل ضیاء الحق نے ملاقات کے ليے اسلام آباد مدعو کیا اور تعریفی سند کے ساتھ ساتھ ان کو پانچ ہزار روپے کے نقد انعام سے بھی نوازا۔ اس کے بعد ان کی کچھ وقت کے ليے حوصلہ افزائی ہوئی۔ اخبار میں شائع ہونے والے خبر کی سرخی کچھ یوں تھی، ’’ایک پہاڑی ناخواندہ مستری نے اپنے گاؤں کو اپنی مدد آپ سے محلہ نور بنا دیا۔‘‘