ڈنمارک: انتخابات سے قبل تارکین وطن کے مسئلے پر بحث
29 مئی 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس طرح کے الفاظ غیر ملکیوں کے لیے حیرت کا باعث تو ہیں ہی مگر تشویش کی بات یہ ہے کہ ملکی سیاستدانوں کی طرف سے تارکین وطن کے لیے اس طرح کے جذبات میں کمی لانے کے لیے کسی قسم کی کوئی کوشش نظر نہیں آ رہی۔
برطانیہ میں پیدا ہونے والی ایک اسکول ٹیچر کیلی ڈریپر کے مطابق، ’’جہاں اس طرح کے جذبات موجود ہوں ان لوگوں کے ساتھ انظمام کے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا،کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ یا تو مجرم ہیں یا پھر ایک مفت کے مزدور۔‘‘ سات برس قبل اسکنڈے نیویا کے اس ملک میں منتقل ہونے والی ڈریپر مزید کہتی ہیں، ’’آخری مرتبہ جب میں مقامی خبریں دیکھی تھیں۔۔۔ تو ان میں دکھائی جانے والی چار رپورٹوں میں سے تین اس بات پر تھیں کہ کیسے تارکین وطن ہر چیز چلا رہے ہیں۔‘‘
ڈنمارک میں عام انتخابات کے لیے 18 جون کی تاریخ طے ہے۔ ان انتخابات کے حوالے سے تارکین وطن کے حوالے سے تحفظات اور اسلام ایجنڈا سرفہرست ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قبل از انتخابات کرائے جانے والے جائزوں میں دائیں بازو کی اپوزیشن سبقت لیے ہوئے ہے۔ تاہم اگر یہ جماعت انتخابات میں کامیابی حاصل بھی کر لیتی ہے تو پارلیمان میں قانون سازی کے لیے تارکین وطن کی مخالفت کرنے والی جماعت ڈینش پیپلز پارٹی (DPP) کی حمایت درکار ہو گی۔
یورپ کے دیگر ممالک میں موجود اس طرح کی جماعتوں کی طرح DPP بھی وقتاﹰ فوقتاﹰ ایسے بیانات جاری کرتی رہتی ہے جو بعض لوگوں کے نزدیک جارحانہ اور یہاں تک کہ نسل پرستانہ ہوتے ہیں تاہم ایسے بیانات کے بڑھتے ہوئے زہریلے پن پر غیر ملکی انگشت بدنداں ہیں۔
کوپن ہیگن میں رہنے والے ڈیوڈ مِلر کہتے ہیں، ’’میں یہودی ہوں اور میں یہاں کے لوگوں کو ہمیشہ کہتا ہوں کہ آپ مسلمان کا لفظ یہودی کے ساتھ بدل دیں تو آپ جرمنی کے اس دور یا حالات میں پہنچ جائیں گے جو 1930ء کی دہائی میں تھے۔‘‘ ڈیوڈ مِلر امریکا سے ہجرت کر کے ڈنمارک میں آباد ہیں۔
DDP کے ارکان پارلیمان مسلم نقاب کو سواستیکا سے تشبیہ دے چکے ہیں جبکہ قرآن کا موازنہ ہٹلر کی تحریر کردہ کتاب ’مائن کیمپف‘ سے کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اسلام ’ہماری تہذیب کے لیے سب سے بڑا خطرہ‘ ہے۔