1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والاغیر انسانی سلوک

ماتھیاس فون ہائن/ کشور مصطفیٰ17 اپریل 2014

ورلڈ ایغور کانگریس کے پریس ترجمان نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ بڑی تعداد میں ایقور مسلمان لاپتہ ہیں۔ چینی حکام ان مغوی ایغور باشندوں کے بارے میں کسی قسم کی اطلاعات فراہم نہیں کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Bk6z
تصویر: Reuters

چین ایک کثیرالنسلی ریاست ہے۔ اس ملک میں سب سے بڑی تعداد ہان نسل کے باشندوں کی ہے۔ ان کے علاوہ 55 دیگر قومیتیں اس ملک میں آباد ہیں جو زیادہ تر مضافات میں رہتے ہیں۔ ان میں سے چند اقلیتی گروپ خود کو ثقافتی طور پر معاشرے کے مرکزی دھارے سے الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ چینی پروپگینڈا گرچہ ایک پُر امن بقاءِ باہمی اور ہم آہنگ معاشرے کی تصویر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے تاہم یہ کس حد تک دُرست ہے اس کا اندازہ چین میں آباد ایغور مسلمانوں کے اقلیتی گروپ کی صورتحال سے ہوتا ہے۔

چین کے شمال مغربی علاقے میں قریب 10 ملین ایغور مسلمان آباد ہیں۔ گزشتہ ویک اینڈ پر شہر آکسو میں ایک 17 سالہ ایغور لڑکے کو ریڈ سگنل پر روڈ کراس کرنے کے جرم میں پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ریڈیو فری ایشیا کے مطابق اس واقعے کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو ظالمانہ طریقے سے کچل کر رکھ دیا گیا۔ ایک ویب سائیٹ ’ چائنا ڈیجیٹل ٹائمز‘ کے مطابق اس 17 سالہ نوجوان کی ہلاکت اور اُس کے خلاف ہونے والے مظاہروں سے متعلق تمام تر رپورٹوں کو چین کے اطلاعات کے سرکاری دفتر کے حکم پر چینی ویب سائٹس سے ہٹا دیا گیا۔

Unruhen in China Xinjang Juni 2013
سنکیانگ میں آئے دن ایغور مسلمانوں اور دیگر چینی نسلی گروپ کے مابین خونی جھڑپیں ہوتی ہیںتصویر: AFP/Getty Images

ہر طرف: بے گھر افراد کی تصاویر

گزشتہ ویک اینڈ پر شہر آکسو میں ایک ایغور نوجوان کی موت کے المناک واقعے کے سبب جنوبی جرمن شہر میونخ میں آباد جلاوطن ایغور باشندوں نے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ جس کا عنوان تھا، "انسانیت کے خلاف خفیہ جرائم - جبری گمشدگیوں ، من مانی گرفتاریاں اور چین میں ایغور باشندوں کا ماورائے عدالت قتل" ۔ دنیا کے 25 ممالک سے آئے ہوئے ایغور مسلمانوں کے نمائندوں نے میونخ میں مرکزی ریلوے اسٹیشن کے قریب ہوٹل ریجنٹ میں چین میں ایغور مسلمانوں کی صورتحال کے بارے میں بات چیت کی۔ کانفرنس ہال کی دیواروں پر اغوا یا قتل شُدہ ایغور مسلمانوں کی تصاویر ایغور مسلمانوں کے حالات سے خبردار کر رہی تھیں۔

عالم سیتوف ورلڈ ایغور کانگریس کے پریس ترجمان ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ بڑی تعداد میں ایقور مسلمان لاپتہ ہیں۔ چینی حکام ان مغوی ایغور باشندوں کے بارے میں کسی قسم کی اطلاعات فراہم نہیں کر رہے ہیں۔ عالم سیتوف نے یہ بھی بتایا کہ ایک سال قبل شی جن پنگ کے بطور ریاستی اور پارٹی سربراہ برسر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک چین میں درجنوں ایغور مسلمان باشندوں کو ماورائے عدالت موت کے گھاٹ اتارا جا چُکا ہے۔ اُن کے بقول،" سکیورٹی فورسز اکثر و بیشتر بغیر عدالتی کارروائی یا مقدمے کی سماعت، ایغوروں کو گولی سے اُڑا دیتی ہیں۔ بعد میں وہ ہلاک ہونے والے کو علیحدگی پسند، دہشت گرد یا انتہا پسند قرار دے دیتے ہیں"۔

میونخ جلا وطن ایغور باشندوں کا مرکز

Isa Dolkun Generalsekretär des World Uighur Congress
ورلڈ ایغور کانگریس کے سکریٹری جنرل دولکُن ایزاتصویر: Patrick von Frankenberg

جرمنی کے جنوبی صوبے بویریا کے دارالحکومت میونخ میں ورلڈ ایغور کانگریس کا صدر دفتر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تین روزہ کانفرنس کا انعقاد بھی اسی شہر میں ہوا۔ آخر میونخ ہی ایغور مسلمانوں کا مرکز کیوں بنا؟ اس کا جواب ورلڈ ایغور کانگریس کے سکریٹری جنرل دولکُن ایزا یوں دیتے ہیں،" سرد جنگ کے زمانے میں بویریا کے صوبائی دارالحکومت میونخ ہی میں امریکی نشریاتی ادارہ ریڈیو لیبرٹی قائم تھا جو ایک ایغور پروگرام بھی نشر کیا کرتا تھا۔ یہ ایغور صحافیوں اور سرگرم عناصر کے ایما پر شروع ہوا تھا۔ اب ریڈیو لیبرٹی پراگ منتقل ہو گیا ہے تاہم ایغور باشندے ماضی کی طرح اب بھی میونخ میں ہی آباد ہیں" ۔

میونخ کی حالیہ کانفرنس میں جلاوطن ایغور باشندوں نے 5 جولائی کو چین کے صوبے سنکیانگ میں مقامی ایغور باشندوں اور ہجرت کر کہ آنے والے ہان نسل کے چینی باشندوں کے مابین شروع ہونے والے تصادم کے پانچ سال پورے ہونے کے موقع پر ایک تقریب کے انعقاد کی تیاریوں کے بارے میں بھی بات چیت کی۔ 2009 ء میں مغربی چین کے صوبے سنکیانگ کے علاقے ارومچی میں ایغور باشندوں اور ہان نسل کے باشندوں کے مابین ہونے والے خونریز فسادات میں سرکاری اطلاعات کے مطابق 200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم میونخ کی حالیہ کانفرنس میں موجود اُن واقعات کے عینی شاہدین کے مطابق 200 سے کہیں زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔