چین سمیت 21 ممالک کی طرف سے نیا ’ایشیائی بینک‘
24 اکتوبر 2014امریکا نے اسے فیصلے کو ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں کا غیر ضروری حریف ادارہ کھڑا کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
چینی دارالحکومت بیجنگ کے ’گریٹ ہال آف دا پیپل‘ میں 21 ممالک کے نمائندوں نے ’ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک‘ AIIB کا انفراسٹرکچر تیار کرنے کے لیے مفاہمت کی ایک یادداشت یا MOU پر دستخط کیے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ نیا بینک چین کی علاقائی سطح پر سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی خواہش کے علاوہ امریکا کے ساتھ اس کے مسابقت پر مبنی تعلقات کا بھی عکاس ہے۔ خیال رہے کہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف یا عالمی مالیاتی فنڈ اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک جیسے اداروں پر امریکا، جاپان اور یورپی ممالک کی اجارہ داری ہے۔
نیا بینک ایشیا میں سڑکوں، ریلوے، پاور پلانٹس اور ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورکس کی تعمیر جیسے منصوبوں کے لیے سرمایہ فراہم کرے گا۔ عالمی مالیاتی ماہرین کے مطابق یہ چیز علاقے کی معیشتوں کے لیے ضروی ہے۔
جن ممالک نے اس نئے بینک کے قیام کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں، ان میں ایشیا کی ایک اور ابھرتی ہوئی قوت بھارت کے علاوہ، آبادی کے لحاظ سے چھوٹے مگر مضبوط معیشتوں کے مالک ممالک مثلاﹰ سنگاپور، ویت نام، فلپائن اور منگولیا وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم جو ممالک اس ایم او یو میں شریک نہیں ہوئے، ان میں امریکا کے اتحادی جاپان، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا شامل ہیں حالانکہ چین ان ممالک کو بھی اس بینک کے قیام میں شریک کرنے کا خواہاں ہے۔
چینی صدر شی جِن پِنگ کی طرف سے اس بینک کا خیال گزشتہ برس ایشیا پیسیفک کی اقوام کی ایک میٹنگ کے دوران پیش کیا گیا تھا۔ چین کی طرف سے قبل ازیں یہ بھی حامی بھری گئی تھی کہ وہ اس بینک کے 50 بلین امریکی ڈالرز کے ابتدائی سرمائے کا مکمل نہیں تو زیادہ تر حصہ فراہم کرے گا۔
بینک کے قیام کے سلسلے میں ایم او یو پر دستخط کے لیے منعقد کی گئی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزیر مالیات لُو جیوائی Lou Jiwei کا کہنا تھا، ’’ہمیں امید ہے کہ مشترکہ کوششوں سے ہم AIIB کو انفراسٹرکچر کے لیے ایک پیشہ ورانہ اور فعال مالیاتی پلیٹ فارم بنا سکیں گے۔‘‘ انہوں نے مستقبل کے اس بینک کو ایک ایسا کثیر القومی مالیاتی ادارہ قرار دیا، جو منصفانہ بنیادوں پر سب کی مدد کے لیے دستیاب ہو گا اور جس کو چلانے کے لیے بہترین طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔
امریکا کی طرف سے اس بینک کی مخالفت کی بڑی وجوہات میں سرمائے کی فراہمی کے لیے بین الاقوامی اسٹینڈرڈز کو کم کرنے، موجودہ کثیر القومی مالیاتی اداروں کے مفادات کے خلاف کام کرنے اور مشکلات میں گِھری اقوام کے مفادات کو یقینی بنانے میں ناکامی کے امکانات اور ان پر تحفظات بتائے گئے ہیں۔
ان میں سے چند ایک تحفظات کا اظہار امریکی سیکرٹری خزانہ جیکب لیو Jacob Lew کی طرف سے رواں ماہ کے شروع میں واشنگٹن میں ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران عوامی سطح پر بھی کیا گیا تھا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق عام طور پر امریکی انتظامیہ کی طرف سے اس بینک کے خلاف خاموشی سے رائے عامہ ہموار کرنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے، جس میں میڈیا کو دی جانے والی ’آف دا ریکارڈ بریفنگز‘ وغیرہ بھی شامل ہیں۔