1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چیف الیکشن کمشنر کی تقرری میں حکومت کی ناکامی، آئینی بحران کا خدشہ

شکور رحیم، اسلام آباد24 نومبر 2014

پاکستانی سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے وفاقی حکومت کو مزید وقت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے یکم دسمبر کو آئندہ سماعت پر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کو نوٹس جاری کیے جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/1DsDk
Pakistan Parlament in Islamabad
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس انور ظہیر جمالی کی بطور قائم مقام چیف الیکشن کمشنر تعیناتی کا نوٹیفکیشن بھی واپس لیا جائے گا۔

آج پیر 24 نومبر کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر مستقل تقرری سے متعلق مقدمے کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے مزید وقت دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ خرابیء صحت کی وجہ سے علاج کے لیے بیرون ملک ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو پہلے ہی بہت وقت دے چکے ہیں مزید وقت نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو غیر ضروری طور پر لٹکایا جارہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ خورشید شاہ کے واپس آنے پر معاملہ حل کر لیا جائے گا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خورشید شاہ واپس آئیں گے تو آپ کہیں گے وزیراعظم غیر ملکی دورے پر ہیں۔ مزید یہ کہ قائد حزب اختلاف کی موجودگی ضروری نہیں ان سے فون پر بھی مشاورت کی جاسکتی ہے۔

بنچ میں شامل جسٹس گلزار نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ایک گھنٹے کا بھی مزید وقت نہیں دیا جاسکتا۔ عدالت اس معاملے کی دوبارہ سماعت یکم دسمبر کو کرے گی۔

قائد حزب اختلاف کی موجودگی ضروری نہیں۔ ان سے فون پر بھی مشاورت کی جاسکتی ہے، سپریم کورٹ
قائد حزب اختلاف کی موجودگی ضروری نہیں۔ ان سے فون پر بھی مشاورت کی جاسکتی ہے، سپریم کورٹتصویر: picture-alliance/dpa

دوسری جانب قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کو واپس بلانے کےسپریم کورٹ کے فیصلے پر قانونی ماہرین کی رائے منقسم ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے کی وجہ سے ملک میں آئینی بحران پیدا ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ کے وکیل جسٹس (ر) طارق محمود کا کہنا ہے کہ آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کا اہم ترین آئینی عہدہ خالی نہیں رہ سکتا: ’’آئین یہ کہتا ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے پوسٹ خالی ہوگی تو پھر یہی ایک طریقہ کار ہے۔کیونکہ چیف الیکشن کمشنر ایک آئینی عہدہ ہے اس کو خالی نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس لیے جب تک مستقل چیف الیکشن کمشنر نہیں آئیں گے تو سپریم کورٹ کے جج صاحب یہ ذمہ داری ادا کریں گے۔ تو آئین کی تو یہی منشاء ہے۔‘‘

تاہم آئینی امور کے ایک اور ماہر وکیل اکرام چوہدری کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کو اختیار حاصل ہے کہ وہ جب بھی چاہیں اپنا جاری کیا ہوا انتظامی حکم نامہ واپس لے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’سپریم کورٹ نے حکومت اور اپوزیشن کو بہت وقت دیا کہ وہ اپنا آئینی فرض پورا کریں اس تقرری کے حوالے سے لیکن وہ اس سلسے میں بوجوہ ناکام رہے۔ رہا معاملہ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی واپسی کا جو سپرریم کورٹ کے جج ہیں، تو سپریم کورٹ ایسا حکم جاری کر سکتی ہے۔‘‘

خیال رہے کہ پاکستان میں چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ گزشتہ 16 ماہ سے خالی پڑا ہے اور اس عرصے کے دوران آئینی طریقہ کار کے مطابق سپریم کورٹ کےحاضر سروس جج قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔

آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تقرری کے لیے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف میں با معنی مشاورت ہونا لازمی ہے۔ اس ضمن میں وزیر اعظم نواز شریف اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے پہلے سپریم کورٹ کے سابق جج بھگوان داس اور پھر سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے ناموں پر اتفاق کیا لیکن دونوں نے یہ ذمہ داری نبھانے سے انکار کر دیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ایک اسیے موقع پر جب حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف الیکشن میں دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر ہے حکومت اور اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کے لیے اس اہم عہدے پر تقرری آسان نہیں ہوگی۔ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا آئینی طریقہ کار اپنی جگہ لیکن حکومت سیاسی دباؤ کو نظر نہیں کر سکتی اور اسے کوئی ایسا امیداور لانا پڑے گا جو تحریک انصاف کے لیے بھی قابل قبول ہو۔