1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’چاند پر چہرہ‘ لاوے سے بنا

عاصم سليم2 اکتوبر 2014

سائنسدانوں نے انکشاف کيا ہے کہ چاند کی سطح پر انسانی چہرے کی مانند نظر آنے والا گڑھا دراصل وہاں آتش فشاں کے لاوے سے بنا تھا نہ کہ کسی ايسٹرآئڈ يا سيارچے کے گرنے سے۔

https://p.dw.com/p/1DOsC
تصویر: picture-alliance/dpa

چاند کی سطح پر ايک ’بيسن‘ يعنی گہرا گڑھا، جسے اگر سطح زمين سے ديکھا جائے تو وہ کسی انسانی چہرے کی طرح دکھائی ديتا ہے پہلے سے لگائے جانے والے اندازوں کے برعکس آتش فشاں کے لاوے سے بنا ہے۔ يہ بات بدھ دو اکتوبر کے روز نيچر نامی جريدے ميں شائع ہونے والی ايک تحقيق کے نتائج ميں سامنے آئی ہے۔ اس گڑھے کو عام طور پر ’Oceanus Procellarum‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، یعنی ’طوفانوں کا بحر‘ اور يہ قريب تين ہزار کلوميٹر کے رقبے پر پھيلا ہوا ہے۔

اب سے پہلے تک سائنسدانوں کی طرف سے لگائے جانے والے اندازوں کے مطابق يہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ چاند کی سطح پر يہ منفرد خصوصيت کسی بہت بڑے سيارچے کے گرنے کے نتيجے ميں نمودار ہوئی تھی اور يہ واقعہ اس وقت رونما ہوا، جب چاند قدرے نيا تھا۔

يہ گڑھا آتش فشاں پہاڑ کا لاوا نکلنے سے بنا تھا
يہ گڑھا آتش فشاں پہاڑ کا لاوا نکلنے سے بنا تھاتصویر: picture-alliance/AP

اس کے برعکس نيچر ميں شائع ہونے والے اس مطالعے ميں ايسے شواہد پيش کيے گئے ہيں، جن سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ يہ گڑھا آتش فشاں پہاڑ کا لاوا نکلنے سے بنا تھا۔ خلائی تحقيق سے متعلق امريکی ادارے ناسا کے مشن سے ملنے والی تازہ معلومات کے تجزيے سے يہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ چاند کی سطح پر قديم زمانے کی دراڑيں موجود ہيں۔ قريب تين تا چار بلين برس قبل ان دراڑوں ميں لاوا بھر گيا، جو وقت کے ساتھ پختہ ہو گيا اور اس نے ايسی شکل اختيار کر لی، جو آج ہميں دنيا سے کسی انسانی چہرے کی مانند دکھائی ديتی ہيں۔

ان دراڑوں کے بارے ميں 2012ء ميں ’گريل‘ نامی ايک مشن کے ذريعے پتا چلايا گيا ہے۔ اس مقصد کے ليے خصوصی طور پر تيار کردہ دو خلائی جہازوں نے چاند کے گرد چکر لگائے اور اس دوران اس کی سطح کے بارے ميں معلومات اکٹھی کيں۔ جيسے جيسے يہ جہاز حرکت کرتے رہے چاند کی سطح پر مختلف مقامات پر کشش ثقل ميں تبديلی ديکھی گئی، جس سے يہ ظاہر ہوا کہ وہاں دراڑيں موجود ہيں۔

امريکا کے معروف میساچوسٹس انسٹيٹيوٹ آف ٹيکنالوجی ميں جيو فزکس کی پروفيسر ماريا زوبر کہتی ہيں کہ اب بھی يہ بات واضح نہيں کہ لاوا کیسے وہاں پہنچا۔ ان کے بقول اتنی بڑی مقدار ميں آتش فشاں کے لاوے کا اٹھنا سائنسدانوں کے ليے ايک معمہ ہے۔