1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چار عشروں میں بنگلہ دیشی صدر کا پہلا دورہ بھارت

جاوید اختر، نئی دہلی18 دسمبر 2014

ڈھاکہ اور نئی دہلی کے مابین تعلقات مسلسل اتار چڑھاؤ کے شکار رہے ہیں۔ اب تقریباﹰ چالیس برس بعد پہلی مرتبہ کوئی بنگلہ دیشی صدر بھارت کے دورے پر آیا ہے۔ اس دورے میں سرحدی تنازعات پر بات کی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/1E6sr
تصویر: Getty Images

صدر عبدالحامد کے آج جمعرات سے شروع ہونے والے چھ روزہ سرکاری دورہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات مزید وسیع اور مستحکم ہونے کی امید کی جارہی ہے۔


1971ء میں پاکستان کی تقسیم اور ایک آزاد ملک کے طور پر بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد سے ڈھاکہ اور نئی دہلی کے مابین تعلقات اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ بھارت کی طویل ترین سرحد بنگلہ دیش سے ملتی ہے جبکہ بنگلہ دیش سے ملحق بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں جاری شورش پسندی، علیحدگی کی تحریکیں اور دہشت دہشت گردی کے واقعات نئی دہلی کے لیے مستقل پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ عسکریت پسند بھارتی علاقے میں اپنی مسلح کارروائیوں کے بعد بنگلہ دیشی علاقوں میں چلے جاتے ہیں جب کہ متعدد انتہاپسند لیڈروں نے بھی وہاں پناہ لے رکھی ہے۔ بھارتی حکام کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین سرحدی تنازعہ حل ہو جانے سے انتہاپسندی اور سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

قبل ازیں سرحدی تنازعہ کو حل کرنے کے لیے 2011ء میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ ا ور ان کی بنگلہ دیشی ہم منصب شیخ حسینہ واجد کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ بنگلہ دیشی پارلیمان نے اس معاہدے کی توثیق بھی کردی تھی لیکن جب اسے بھارتی پارلیمان میں پیش کیا گیا تو کئی علاقائی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ بی جے پی نے بھی اس کی سخت مخالفت کی تھی۔ موجودہ وزیر خزانہ اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر ارون جیٹلی نے یہاں تک کہا تھا کہ یہ معاہدہ کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ تاہم وزیر اعظم نریندر مودی نے آسام کے حالیہ دورہ کے دوران عوام کو یقین دلایا کہ اس سرحدی تنازع کو حل کرنے اور بنگلہ دیش کے ساتھ زمین کی تبادلے سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے دراندازی اور بنگلہ دیشیوں کی غیر قانونی آمد کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے بعد اس معاملے کو پارلیمنٹ کی خارجہ امور سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی کو سونپ دیا گیا، جس نے یکم دسمبر کو اپنی رپورٹ میں کہا کہ حکومت زمین کے تبادلے کے معاملے کو آگے بڑھائے۔

بنگلہ دیش میں بھارت کے سابق سفیر پناک رنجن چکروتی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ''حالانکہ معاہدہ ہوگیا تھا اور سب کچھ ٹھیک تھا لیکن ریاست کی طرف سے بعض اعتراضات کی وجہ سے سابقہ حکومت دو سال تک انتظار کرتی رہی اور جب اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو سیاسی مسئلہ بنادیا گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ اس پر سیاسی اتفاق رائے ہونا ضروری ہے اور یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے، مقامی اعتراضات ہیں، جن کو حل کیا جاسکتا ہے۔‘‘

واضح رہے کہ زمین کے اس تبادلے کے تحت بھارت بنگلہ دیش کو 17169ایکڑ پر مشتمل 111 انکلیو بنگلہ دیش کے حوالے کرے گا جب کہ بنگلہ دیش اس کے بدلے 7110 ایکڑ پر مشتمل 51 انکلیو بھارت کو دے گا۔ ان علاقوں میں تقریباﹰ اکیاون ہزار نفوس آباد ہیں۔ یہ علاقے آسام، مغربی بنگال، تری پوری اور میگھالیہ میں آتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ ہوجانے کے بعد ان افراد کو وہ سرکاری سہولیات حاصل ہوسکیں گی، جن سے وہ اب تک محروم ہیں۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیشیوں کی غیر قانونی آمدکے مسئلے کو بھی حل کرنے میں مدد ملے گی۔ سابق سفیر میرا شنکر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ''اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ غیر قانونی طریقے سے بنگلہ دیش سے لوگ آتے ہیں لیکن بیشتر افراد اپنی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لیے آتے ہیں اور اس مسئلے کو بنگلہ دیش کے ساتھ مل کر حل کرنا چاہیے۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس سلسلے میں کوئی انتہائی قدم اٹھانا مناسب نہیں ہوگا۔‘‘
بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان تیستاندی کی پانی کے تقسیم کا مسئلہ بھی حل طلب ہے۔ عبدالحامد کے اس دورے کے دوران اس موضوع پر بھی بات چیت ہونے کی امید ہے۔