1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیسے سے خوشی خریدی جا سکتی ہے: ایک جائزہ

30 اکتوبر 2014

ابھرتی ایشیائی اقوام میں جیسے جیسے اقتصادی صورت حال بہتر ہو رہی ہے ویسے ویسے اُن کے معیارات زندگی بھی بدل رہے ہیں۔ اِس مناسبت سے ایک امریکی تھنک ٹینک نے تینتالیس ملکوں سے ڈیٹا اکٹھا کر کے ایک جائزہ رپورٹ مرتب کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1DeRW
تصویر: rangizzz - Fotolia

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم غیر جانبدار تھنک ٹینک پیُو ریسرچ سینٹر نے ایک گلوبل سروے کی رپورٹ آج جمعے کے دِن جاری کی ہے۔ اِس سروے کا بنیادی مقصد یہ جاننا تھا کہ آیا پیسے سے مسرت کا حصول ممکن ہے۔ ریسرچ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح کسی بھی ملک کی مجموعی قومی آمدنی میں اضافے اور پھر انفرادی سطح تک پہنچنے والے ثمرات سے فردِ واحد کو تسکین حاصل ہوتی ہے۔ اِس سروے کے لیے پیُو ریسرچ سینٹر نے 43 ملکوں کے اٹھارہ سال یا اِس سے زیادہ عمر کے پچاس ہزار کے قریب افراد سے انٹرویو کیے۔

Deutschland USA Währung Euro und Dollar Aufnahme mit Dreheffekt
عام تاثر ہے کہ پیسے سے مسرت کا حصول ممکن ہے۔تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

اِس سروے کے شرکاء سے پوچھا گیا کہ اُن کے پاس کس چیز کی کمی ہے اور یہ کہ آیا اُن کے پاس ٹیلی وژن، ریفریجیٹر، سائیکل، موٹر سائیکل، ریڈیو، واشنگ مشین، مائیکروویو اوون، کمپیوٹر اور کار ہے۔ سروے کے مطابق ان اشیاء میں سے جس کے پاس جتنی اشیاء موجود ہوں گی، اُس کی آسودگی کی سطح بھی اتنی ہی بلند ہو گی۔ یہ سروے رواں برس مارچ سے جون کے درمیان مکمل کیا گیا تھا۔ اب اعداد و شمار پر مبنی یہ رپورٹ جاری کر دی گئی ہے۔

ساتھ ہی ریسرچرز نے اعداد و شمار کے حوالے سے یہ بھی واضح کیا کہ دولت سے لا محدود مسرتیں خریدنا ممکن نہیں اور یہ کہ اِس طرح سے مسرتیں خریدنے کی بھی ایک حد ہوا کرتی ہے۔ محققین نے ایشیا کی اقوام کے حوالے سے یہ بھی تعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ کون کون سے ممالک میں لوگ بہتر زندگی گزار رہے ہیں اور کون کون سے ملکوں میں لوگ غیر اطمینان بخش زندگی گزار رہے ہیں۔

Lettland Euro Einführung
اقوام میں مال و دولت کو معیارِ زندگی بہتر کرنے کے لیے اہم خیال کیا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ ملائیشیا کے عوام بظاہر سب سے زیادہ پر مسرت دکھائی دیتے ہیں۔ چھپن فیصد ملائیشیائی لوگ اپنی موجودہ زندگی کے حوالے سے اطمینان رکھتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمنی جیسا ملک جہاں جی ڈی پی کی شرح ملائیشیا سے بہت زیادہ بہتر ہے، وہاں مطمئن زندگی گزارنے والوں کی شرح ساٹھ فیصد ہے اور یہ تناسب ملائیشیا سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ریسرچ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسرت کے حصول کے لیے دولت اہم ہے اور مردوں کے مقابلے میں خواتین میں خوشی اور اطمینان کا احساس زیادہ پایا جاتا ہے۔ اسی طرح غیر شادی شدہ افراد اور درمیانی عمر کے لوگ خود کو مسرت کے کم تر درجے پر محسوس کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں مطمئن زندگی بسر کرنے والوں کی شرح چھتیس فیصد ہے۔

ایشیائی اقوام میں اطمینان کی سطح بلند پائی گئی۔ بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، چین اور فلپائن کی آبادی کے بڑے حصے کا خیال ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں اُن کی آسودگی کی سطح بلند ہو جائے گی۔ اِس سروے کے مطابق اردن، مصر اور تیونس کے عوام انتہائی کم آسودہ ہیں اور مستقبل کے حوالے سے بھی یاسیّت کا شکار ہیں۔ ریسرچرز کے مطابق اِن علاقوں میں سیاسی اور سماجی افراتفری بھی لوگوں کے زندگی کے بارے میں احساسات پر براہِ راست اثرانداز ہو رہی ہے۔

ایشیا کی ابھرتی چودہ اقوام میں یہ سروے سن 2007 میں بھی کیا گیا اور اب سن 2014 میں کیا گیا۔ پتہ یہ چلا کہ چَودہ میں سے آٹھ اقوام میں اُن افراد کی تعداد دوگنا ہو گئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مطمئن اور آسودہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اِن ملکوں میں پاکستان، انڈونیشا، روس، چین اور ملائیشیا بھی شامل ہے۔