1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیرو: تشدد پسند محبوبوں کے ’پیار بھرے خطوط‘

عاطف توقیر21 اپریل 2015

عاشقوں کے ہاتھوں محبوباؤں پر تشدد کے اعتبار سے پیرو آگے آگے ہے۔ پچھلے چھ برس میں 680 خواتین اپنے مرد پارٹنرز کے ہاتھوں قتل ہو چکی ہیں۔ 2011میں اس جرم کو ’فیمی سائیڈ‘ قرار دے کر اس کے خلاف سخت قانون سازی بھی کی گئی۔

https://p.dw.com/p/1FBc4
تصویر: Freesurf /Fotolia

راکیل کے بوائے فرینڈ نے اس پر تشدد کرنے کے بعد اپنے ایک ’معذرت نامے‘ میں لکھا تھا، ’اب ایسا کبھی نہیں ہو گا‘۔

اپنے اس خط میں وہ مزید لکھتا ہے، ’میں قسم کھاتا ہوں، ایسا دوبارہ کبھی نہیں ہو گا۔ تم میری زندگی کا پیار ہو۔ مجھے معاف کر دو۔‘

اس خط میں درج ان لفظوں کے اس حصے میں بے بسی کی اس درجہ معصومانہ صورت دیکھ کرراکیل کا دل پسیج گیا اور وہ اپنے بوائے فرینڈ کا ہاتھ دوبارہ تھام بیٹھی۔ یہ خط اور یہ جملہ آخری ہی ثابت ہوا، اس کے پانچ ہفتے بعد محبوب نے مار مار کر راکیل کی جان لے لی۔

یہ معاملہ نئی کتاب ’میرے لیے مت مرنا‘ میں شائع ہونے والے ان 25 واقعات میں سے ایک ہے، جس میں محبت کے خطوط، ای میلز اور مختصر پیغامات کو شامل کیا گیا ہے، جن میں تشدد پسند عاشقوں نے اپنی محبوباؤں سے معذرت کی۔ ان خطوط کے ساتھ ساتھ پورے واقعات بھی درج ہیں کہ پھر بعد میں ہوا کیا۔

BdT Internationaler Tag Kampf gegen Gewalt gegen Frauen Guatemala City
پیرو خواتین پر تشدد کے حوالے سے بدترین صورت حال کا شکار ملک ہےتصویر: AP

اس کتاب میں درج بہت سی کہانیاں راکیل کی کہانی جیسی ہی ہے۔ ’میں قسم کھاتا ہوں، اصل میں یوں نہیں یوں تھا‘، ’میں نے ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا‘۔ ’میں ایسا دوبارہ کبھی نہیں کروں گا‘ اور ’مجھے معاف کر دو‘ وہ عمومی جملے ہی، جو ان خطوط میں کثرت سے ملتے ہیں اور جن کے بعد آگے کی کہانی پہلے سے بھی زیادہ تشدد سے عبارت ہوتی ہے۔

عالمی ادارہء صحت کی سن 2005ء کی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پیرو میں تقریباﹰ 61 فیصد خواتین اپنے مرد ساتھیوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ پیرو خواتین پر تشدد کے اعتبار سے بدترین صورت حال کے حامل دس ممالک بنگلہ دیش، برازیل، ایتھوپیا، جاپان، نمیبیا، ساموآ، سیربیا، مونٹی نیگرو، تھائی لینڈ اور تنزانیہ میں سب سے آگے تھا۔

پیرو حکومت کے مطابق ملک میں 49 فیصد خواتین شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں، جس میں مکے، گھونسے، لات، گھسیٹنا یا ہتھیار سے حملہ کرنے یا دھمکی دینے جیسے سنگین معاملات بھی شامل ہیں۔

اس کتاب کا دیباچہ نوبل انعام یافتہ ادیب ماریو وارگس لیوسا نے لکھا ہے۔ اس کتاب کا مقصد ان خواتین کو حوصلہ اور آواز دینا ہے، جو ایسے شدید مظالم کے باوجود اپنی آواز بلند نہیں کرتیں۔

اسی صورت حال کے تناظر میں پیرو حکومت نے اسے باقاعدہ ایک علیحدہ جرم تصور کرتے ہوئے اسے ’فیمی سائیڈ‘ یا ’قتلِ نسواں‘ کا جرم قرار دیا تھا اور اس کی سخت سزائیں مقرر کی تھیں۔