1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ایل او اور فلسطینی اتھارٹی کو درپیش چیلنجز

افسر اعوان3 مارچ 2015

فلسطینی رہنما رواں ہفتے اہم ملاقات کر رہے ہیں۔ اس دوران فلسطینی اتھارٹی کے مستقبل کے حوالے سے اہم فیصلے کیے جائیں گے جو اسرائیل کی جانب سے فنڈز کے اہم ذریعے کو منقطع کرنے کے باعث شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔

https://p.dw.com/p/1EkTS
تصویر: Getty Images

فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کو جسے فلسطینیوں کی اکلوتی قانونی نمائندہ تنظیم اور فیصلہ ساز باڈی تصور کیا جاتا ہے، سیاسی سے لے کر معاشی مشکلات تک کا سامنا ہے۔ فلسطینی رہنماؤں کی دو روزہ ملاقات بدھ چار مارچ سے راملہ میں شروع ہو رہی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس میٹنگ کے دوران جو اہم ترین مسئلہ زیر غور آئے گا وہ فلسطینی اتھارٹی کو درپیش اقتصادی بحران ہے۔

دو ماہ قبل سے اسرائیل نے وہ سینکڑوں ملین ڈالرز کے فنڈز روکے ہوئے ہیں جو اس نے فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے بطور ٹیکس جمع کیے ہیں۔ یہ رقم دراصل فلسطینی اتھارٹی کی ملکیت ہے تاہم اسرائیل نے جمع شدہ ٹیکس کی اس رقم کی مغرب کنارے میں فلسطینی حکومت چلانے والی اس اتھارٹی کو اس وقت فراہم کرنا روک دی جب فلسطینیوں نے بین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ قائم کرنے کی درخواست دی۔

صدر محمود عباس کا مینڈیٹ 2009ء میں ختم ہو گیا تھا
صدر محمود عباس کا مینڈیٹ 2009ء میں ختم ہو گیا تھاتصویر: Getty Images

یہ رقم روکے جانے کے باعث فلسطینی اتھارٹی اپنے 180,000 ملازمین کو تنخواہیں دینے سے قاصر ہے۔گزشتہ ہفتے اس وقت بھی فلسطینی اتھارٹی کو ایک مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب نیویارک کی ایک عدالت نے پی ایل او اور فلسطینی اتھارٹی کو یروشلم میں ہونے والے سلسلہ وار حملوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انہیں 650 ملین ڈالر بطور ہرجانہ ادا کرنے کا حکم سنایا۔

اوسلو معاہدے کے تحت 1994ء میں قائم ہونے والی فلسطینی اتھارٹی کا مینڈیٹ کافی پہلے ختم ہو چکا ہے۔ جبکہ صدر محمود عباس کا مینڈیٹ بھی 2009ء میں ختم ہو گیا تھا۔ عباس پی ایل او کے علاوہ حکمران الفتح تحریک کے بھی سربراہ ہیں۔

فلسطینی تنظیم حماس نے 2006ء میں ہونے والے انتخابات میں فلسطین کی قانون ساز کونسل یا پارلیمنٹ پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کی تھی۔ اسی باعث اس قانون ساز کونسل کا مکمل سیشن بھی 2007ء کے بعد سے منعقد نہیں ہوا۔

حالیہ بحران کے تناظر میں فلسطینی اتھارٹی متعدد مرتبہ اس بات کی دھمکی دے چکی ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی کے حوالے سے تعاون منقطع کر دے گی یا اتھارٹی کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ اس پر نہ صرف واشنگٹن بلکہ یورپ میں بھی تحفظات پیدا ہوئے۔ تاہم اس طرح کا فیصلہ پی ایل کی مرکزی کونسل کے تمام 130 ارکان کی جانب سے ہی لیا جا سکتا ہے جو رواں ہفتے راملہ میں ملاقات کر رہے ہیں۔

1964ء میں بننے والی تنظیم پی ایل او میں الفتح اور دیگر فلسطینی تنظیمیں شامل ہیں تاہم ان میں حماس اور اسلامک جہاد شامل نہیں ہیں۔ ایک دہائی بعد اقوام متحدہ نے پی ایل او کو فلسطینی عوام کی واحد نمائندہ جماعت کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔

گزشتہ برس فلسطینیوں کے درمیان مفاہمتی معاہدے کے تحت حماس اور فتح کے درمیان برسوں سے جاری دشمنی ختم ہونے کا امکان پیدا ہوا۔ بدھ کے روز سے ہونے والی دو روزہ ملاقات میں اس معاہدے پر بھی غور کیا جائے گا۔