1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پھانسیاں بے ضابظہ ہوں گی تو عدالتیں مداخلت کریں گی‘

شکور رحیم، اسلام آباد22 دسمبر 2014

صوبہ پنجاب اور سندھ کی ہائی کورٹس نے دہشت گردی کے الزم میں سزائے موت کے منتظر سات قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد روک دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر بے ضابطہ اقدامات کیے جائیں گے تو عدالتیں مداخلت کریں گے۔

https://p.dw.com/p/1E8hD
Gefängnis in Karachi Pakistan
تصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی کے جسٹس ارشد محمود تبسم نے پیر کے روز جن پانچ قیدیوں کی سزائے موت کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا ان میں احسان عظیم، عمر ندیم، آصف ادریس، کامران اسلم اور عامر یوسف شامل ہیں۔ ان پانچوں ملزمان کو جولائی 2012 میں گجرات میں ایک فوجی کیمپ پر حملے کا مجرم قرار دیاگیا تھا۔اس حملے میں چار فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

قیدیوں میں سے ایک احسان عظیم کے وکیل لئیق خان سواتی کے مطابق ان کے مؤکل کے خلاف فوجی عدالت میں یکطرفہ کارروائی کر کے انہیں سزائے موت سنائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ فوجی عدالت میں کی گئی کارروائی کا کوئی بھی ریکارڈ ملزم کے اہل خانہ یا وکیل کو نہیں دیا گیا۔ ملزم کی والدہ ساجدہ پروین کی درخواست پر عدالت نے فوجی عدالت کا ریکارڈ طلب کیا تھا، جو مہیا نہیں کیا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ نے ایک مرتبہ پھر فوجی عدالت میں چلائے گئے مقدمے کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے اس مقدمے کی سماعت چوبیس دسمبر تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے آئندہ سماعت تک ان قیدیوں کی سزائے موت پر عملدرآمد نہ کرنے کا حکم بھی دیا۔

اس مقدمے کے سرکاری وکیل چوہدری مصروف کے مطابق آئندہ سماعت پر ملزمان کے ٹرائل کا ریکارڈ پیش کر دیا جائے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ عدالت میں ریکارڈ پیش کیے جانے کے بعد حکم امتناعی خارج ہو کر ملزمان کی سزا پر عمل درآمد ہو جائے گا۔

سپریم کورٹ کے وکیل اکرام چوہدری کے مطابق اگر حکام قانون پر عمل نہیں کریں گے تو عدالتیں مداخلت کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ ، ’’اگر حتمی طور پر فیصلہ ہوگیا (پھانسی )اعلیٰ ترین عدالتوں سے تو اس پر عمل درآمد قانون کی ضرورت ہے لیکن سزائے موت دینے کے لیے بھی ایک طریقہ کار ہے، قواعد ہیں، جیل مینوئل ہے، اگر اس میں بے ضابطہ تبدیلیاں کی جائیں گی تو عدالتیں اس میں مداخلت کریں گی اور انہیں کرنی بھی چاہیے۔‘‘

دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے دہشت گردی کے الزم میں دو ملزمان عطاءاللہ اور محمد اعظم کو کل(منگل) دی جانے والی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا۔ ملزمان پر فرقہ وارانہ بنیادوں پر دو ہزار دو میں ایک ڈاکٹر کو قتل کیے جانے کا الزام تھا۔ ملزمان کے وکیل نے سندھ ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف دائر اپیل میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کی سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل زیر التواء ہے۔

عدالت نے سرکاری وکیل کی جانب سے جواب جمع کرانے کے لیے مہلت مانگنے پر مقدمے کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔

خیال رہے کہ سولہ دسمبر کو پشاور میں فوج کے زیر انتظام سکول پر حملے میں 132 طلباء سمیت 141 افراد کی ہلاکت کے بعد دہشت گردی کے الزامات میں سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی سزاؤں پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں اب تک چھ مجرمان کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ ان میں سے صرف ایک عقیل عرف ڈاکٹر عثمان جی ایچ کیو پر حملے میں ملوث تھے جبکہ باقی پانچوں کو سابق صدر جنرل مشرف پر قاتلانہ حملے پر موت کی سزا دی گئی تھی۔

اس سے قبل پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے قومی انسداد دہشت گردی سے متعلق منصوبے کی تیاری کے لیے جائزہ اجلاس کی سربراہی کی۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق اجلاس میں وفاقی وزراء برائے داخلہ، خزانہ، سرحدی امور کے علاوہ وزیراعظم کے خصوصی معاونین اور اٹارنی جنرل نے شرکت کی۔ بیان کے مطابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس وقت قبائلی علاقوں میں آپریشن ضرب عضب جاری ہے جبکہ دوسرا ہمارے دیہاتوں اور شہروں میں چھپے دشمنوں کے خلاف کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ، ’’ہزارہ ٹاؤن کوئٹہ اور پشاور چرچ حملے جیسے واقعات میں معصوموں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں گے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ حکومت دہشت گردوں اور اور ان کو تحفظ دینے والوں میں فرق نہیں کرے گی۔ دہشت گردی اور فرقہ واریت پاکستان کے لیے سرطان کی طرح ہے اور اب وقت آن پہنچا ہے کہ اس برائی سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔