1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پڑھو اور زندگی بدلو‘

دانش بابر، پشاور16 اپریل 2014

خیبر پختون خواہ حکومت نےصوبے میں ”پڑھو اور زندگی بدلو“ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا ہے ، اس مہم کے بارے میں صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان کا کہنا ہے اس کے تحت صوبے میں ساڑھے سات لاکھ بچوں کو اسکولوں میں داخل کیا جائیگا۔

https://p.dw.com/p/1BjYR
تصویر: DW/D. Baber

لوگوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا کسی بھی حکومت کے اولین فرائض میں شامل ہوتا ہے، کیونکہ تعلیم یافتہ لوگوں ہی پر ریاست کی ترقی کا انحصار ہوتا ہے۔ خیبر پختون خواہ حکومت نےصوبے میں ”پڑھو اور زندگی بدلو“ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا ہے ، اس مہم کے بارے میں صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان کا کہنا ہے اس کے تحت صوبے میں ساڑھے سات لاکھ بچوں کو اسکولوں میں داخل کیا جائیگا ان کی حکومت کی یہ کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں، اس سلسلے میں صوبہ بھر میں آگاہی مہم چلائی جارہی ہے تاکہ لوگوں میں تعلیم کی اہمیت کے بارے میں شعورپیدا کیاجائے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتا یا کہ اسکولوں اور تعلیم کے معیار کو بہتر بنایا جارہاہے تا کہ بچے پرائیویٹ اسکولوں کی بجائے سرکاری اسکولوں میں داخلہ لیں، سابقہ حکومت نے تعلیم کے لئے اربوں روپے خرچ کئے لیکن معیار میں کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی ہے۔ ان کی حکومت کی یہ کوشش ہے کہ تعلیم کو عام اور آسان بنائے تاکہ ہر خاص و عام کو اس تک رسائی ہو۔ وہ کہتے ہیں، " اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو تعلیم نہ دے سکیں، تو اس سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں، جیسے کہ بنیاد پرستی ، ہم کہتے ہیں کہ جمہوریت ٹھیک نہیں ہے، ہماری معیشت صحیح نہیں ہے، ہمارے اور بھی جو مسائل ہیں سب کے سب کا تعلق تعلیم سے ہے، تو اس وجہ سے ہم کوشش کر رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو اسکول کی طرف لائیں اور پھر اس کو برقرار بھی رکھیں۔"

Pakistan Peschawar Neue Bildungskampagne für Khyber Pakhtun Khwa
صوبائی وزیر تعلیم عاطف خانتصویر: DW/D. Baber

پشاور کے فوجیوں کے ایک رہائشی علاقے میں واقع ایک آٹومبائل ورکشاپ میں کام کرنے والے آٹھ سالہ آصف کا کہنا ہے کہ اس کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق ہے، لیکن اس کے گھر والے اس کو اسکول جانے کی اجازت نہیں دے رہیں کیونکہ اسکول جانے سے وہ پھر گھر والوں کے لئے پیسے نہیں کمااسکتا۔ وہ کہتا ہے،”میں غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جا سکتا، ہم لوگ بہت غریب ہیں، مجھے ہفتے کے پچاس روپے ملتے ہیں جو میں اپنی والدہ کو دیتا ہوں۔“ کم سن آصف کا کہنا ہے کہ اس کے چار بھائی ہیں اور سب اس طرح مختلف جگہوں پر محنت مزدوری کر رہے ہیں۔

پشاور کی طرح صوبہ بھر میں ہزاروں نوعمر بچے اگر کہیں ورکشاپوں میں میلے کپڑے پہن کر گاڑیوں کی مرمت کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں چائے کے ہوٹلوں میں برتن اٹھاتے اور دھوتے ہوئے۔ ان بچوں کے تعداد کے بارے میں ایک غیر سرکاری ادارے کیمپ میں ایکسپرٹ کے طور پر کام کرنے والے عمران ٹکر کا کہنا ہے کہ سال 1996 کے بعد اب تک چائلڈ لیبر کے حوالے سے کوئی سروے نہیں کیا گیا، اس سروے کے مطابق اس وقت صوبے میں 11 لاکھ بچے محنت مشقت کر رہیں تھے، اس کے بعد اب تک کوئی بھی سرکاری یا غیر سرکاری نئی شماریات سامنے نہیں لائی گئیں، لہٰذا یہ بات تو طے ہے کہ اگر اس وقت چائلڈ لیبر کی تعداد 11 لاکھ تھی، تو اب یہ اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ اگر اسٹریٹ چائلڈ کی بات کی جائے تو 2005 میں آزاد فاؤنڈیشن کے ایک سروے کے مطابق صرف پشاور سٹی میں پانچ ہزار سے زائد اسٹریٹ چائلڈ تھے۔ لیکن یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ موجودہ وقت میں ان کی درست تعداد کے بارے میں حکومت کے پاس کوئی اعداد وشمار موجود نہیں ہیں۔ عمران ٹکرکا مزید کہنا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام درست ہے کہ صوبے میں ساڑھے سات لاکھ بچوں کو اسکولوں میں داخل کیا جائے، لیکن اس قسم کی مہم دیرپا ہونے چاہیے اور اس کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ باقاعدہ طور پر قانون سازی کرے،اور ایسے منصوبے بنائے کہ مشقت اور بھیک مانگنے والے بچے بھی تعلیم سے روشناس ہوسکیں۔

Pakistan Peschawar Neue Bildungskampagne für Khyber Pakhtun Khwa
2005 میں آزاد فاؤنڈیشن کے ایک سروے کے مطابق صرف پشاور سٹی میں پانچ ہزار سے زائد اسٹریٹ چائلڈ تھےتصویر: DW/D. Baber

دوسری طرف جب صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان سے آصف جیسے کم سن بچوں کے بارے میں بات کی گئی جن کی تعداد کے بارے میں ابھی تک حکومت کے پاس بھی کوئی ٹھوس معلومات نہیں، تو ان کا کہنا تھا،اللہ کرے کہ ہمارے پاس اتنا بجٹ آئے کہ ہم ان کو کچھ رقم دے سکیں، لیکن فی الحال ہمارے لئے اس اسٹیج پر یہ مشکل ہے، کہ ہم ان کو تعلیم بھی مفت دیں، کتابیں بھی دیں اور اسکول بھی مفت ہو، اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو مزید پیسے بھی دے سکیں۔“

وہ مزید کہتے ہیں کہ ا س مہم کے لئے کوئی الگ فنڈ مختص نہیں کیا گیا ہے،ان کا خیال ہے کہ تعلیم کی مد میں شروع کی جانے والی اچھی پالیسیوں کو سیاست سے دور رکھا جائے تاکہ اس قسم کے مثبت منصوبے ہمیشہ کے لئے جاری رہیں۔

حکومتی یہ دعوے اپنی جگہ لیکن ان کمسن بچوں کا کیا ہوگا جو مجبوری کے تحت محنت مزدوری یا بھیک مانگ کر اپنے گھر چلاتے ہیں، کیا ان کو تعلیم حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے؟