’پُرامن ملکوں میں بھی تشدد بچوں کی جان لے رہا ہے ‘
21 اکتوبر 2014بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی اس ایجنسی نے یہ بات ایک رپورٹ میں کہی ہے جس میں ظاہر کیے گئے ایک اندازے کے مطابق یومیہ تین سو پینتالیس اموات میں سے تقریباﹰ پچہتر فیصد ایسے ملکوں میں ہو رہی ہیں جو پُر امن ہیں۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے: ’’ملالہ یوسف زئی کے قتل کی کوشش (پاکستان میں) اور نائجیریا میں بوکو حرام (شدت پسند تنظیم) کی جانب سے 276 طالبات کے اغوا سے بلآخر دُنیا کی آنکھیں کھلی ہیں کہ وہ اس بات کو دیکھ سکیں کہ تعلیم کے حصول کے دوران بچوں کو جان سے مارا جا سکتا ہے۔‘‘
یونیسیف میں بچوں کے تحفظ کے شعبے کی سربراہ سوسن بیسیل نے تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’ہم اس حقیقت سے پردہ اٹھا رہے ہیں کہ بچوں کو ہر روز، ہر جگہ شدید نوعیت کے تشدد کا تجربہ کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
بعض ملکوں میں تشدد کے نتیجے میں ہونے والی بچوں کی اموات بیماریوں اور بھوک کی وجہ سے ہونی والی ہلاکتوں کے خلاف ہونے والی پیش رفت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں۔
بیسیل کا کہنا ہے: ’’دُکھ کی بات یہ ہے کہ گزشتہ دو یا تین دہائیوں سے ہم نے قابلِ علاج بیماریوں کے تناظر میں بچوں کی شرح اموات پر بہت توجہ دی ہے اور جو بات اس رپورٹ میں سامنے آئی ہے، وہ یہ ہے کہ ہمیں بچوں کی شرح اموات کے لیے تمام اسباب پر سوچنے کی ضرورت ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’اور اس بات کا تصور کرنا بھی دہشت ناک ہے کہ ہم نے بچوں کے تحفظ کے معاملے پر توجہ نہ دی تو شاید ہم بچوں کو بچانے کے لیے اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب نہ ہوسکیں۔‘‘
برطانیہ میں یونیسیف کی ایک اور اہلکار لیہا کرائٹسمین کا کہنا ہے کہ برازیل میں 2000ء سے قابلِ علاج بیماریوں کے نتیجے میں پانچ برس کی عمر سے قبل مرنے والے بچوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔
لاکھوں بچوں کو اپنے گھروں، اسکولوں اور کمیونٹیوں میں جسمانی، جنسی اور جذباتی تشدد کا سامنا ہے۔ کرائٹسمین کا کہنا ہے: ’’اگر ہم اس مسئلے کی طے تک جائیں، جنسی تشدد، گھروں اور اسکولوں میں تشدد کے ذریعے بچوں کو منظم بنانے کی کوششیں، یہ سب وہ عوامل ہیں جو بچوں کی زندگیوں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔‘‘
وہ کہتی ہیں: ’’ہر روز کے تشدد کے نتیجے میں بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت مستقل طور پر تباہ ہو رہی ہے۔‘‘