1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پُرامن ملکوں میں بھی تشدد بچوں کی جان لے رہا‍ ہے ‘

ندیم گِل21 اکتوبر 2014

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ دنیا میں ہر پانچ منٹ میں تشدد کے نتیجے میں ایک بچہ ہلاک ہو رہا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ بیشتر ہلاکتیں جنگ زدہ علاقوں سے باہر ہو رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DZ0W
تصویر: Fotolia/Firma V

بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی اس ایجنسی نے یہ بات ایک رپورٹ میں کہی ہے جس میں ظاہر کیے گئے ایک اندازے کے مطابق یومیہ تین سو پینتالیس اموات میں سے تقریباﹰ پچہتر فیصد ایسے ملکوں میں ہو رہی ہیں جو پُر امن ہیں۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے: ’’ملالہ یوسف زئی کے قتل کی کوشش (پاکستان میں) اور نائجیریا میں بوکو حرام (شدت پسند تنظیم) کی جانب سے 276 طالبات کے اغوا سے بلآخر دُنیا کی آنکھیں کھلی ہیں کہ وہ اس بات کو دیکھ سکیں کہ تعلیم کے حصول کے دوران بچوں کو جان سے مارا جا سکتا ہے۔‘‘

یونیسیف میں بچوں کے تحفظ کے شعبے کی سربراہ سوسن بیسیل نے تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’ہم اس حقیقت سے پردہ اٹھا رہے ہیں کہ بچوں کو ہر روز، ہر جگہ شدید نوعیت کے تشدد کا تجربہ کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘

Symbolbild Kinderlosigkeit
بچوں کی بیشتر ہلاکتیں جنگ زدہ علاقوں سے باہر ہو رہی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

بعض ملکوں میں تشدد کے نتیجے میں ہونے والی بچوں کی اموات بیماریوں اور بھوک کی وجہ سے ہونی والی ہلاکتوں کے خلاف ہونے والی پیش رفت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں۔

بیسیل کا کہنا ہے: ’’دُکھ کی بات یہ ہے کہ گزشتہ دو یا تین دہائیوں سے ہم نے قابلِ علاج بیماریوں کے تناظر میں بچوں کی شرح اموات پر بہت توجہ دی ہے اور جو بات اس رپورٹ میں سامنے آئی ہے، وہ یہ ہے کہ ہمیں بچوں کی شرح اموات کے لیے تمام اسباب پر سوچنے کی ضرورت ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا: ’’اور اس بات کا تصور کرنا بھی دہشت ناک ہے کہ ہم نے بچوں کے تحفظ کے معاملے پر توجہ نہ دی تو شاید ہم بچوں کو بچانے کے لیے اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب نہ ہوسکیں۔‘‘

برطانیہ میں یونیسیف کی ایک اور اہلکار لیہا کرائٹسمین کا کہنا ہے کہ برازیل میں 2000ء سے قابلِ علاج بیماریوں کے نتیجے میں پانچ برس کی عمر سے قبل مرنے والے بچوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔

لاکھوں بچوں کو اپنے گھروں، اسکولوں اور کمیونٹیوں میں جسمانی، جنسی اور جذباتی تشدد کا سامنا ہے۔ کرائٹسمین کا کہنا ہے: ’’اگر ہم اس مسئلے کی طے تک جائیں، جنسی تشدد، گھروں اور اسکولوں میں تشدد کے ذریعے بچوں کو منظم بنانے کی کوششیں، یہ سب وہ عوامل ہیں جو بچوں کی زندگیوں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔‘‘

وہ کہتی ہیں: ’’ہر روز کے تشدد کے نتیجے میں بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت مستقل طور پر تباہ ہو رہی ہے۔‘‘