1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پولینڈ، یہودی زندگی کی ایک ہزار سالہ تاریخ پر خصوصی نمائش

عاطف بلوچ28 اکتوبر 2014

پولیش دارالحکومت میں قائم یہودیوں کے ایک میوزیم ميں ایک نمائش کا افتتاح کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں منعقد کی جا رہی ایک تقریب میں پولش صدر برونیسلاوکومورفسکی اور ان کے اسرائیلی ہم منصب رُووَین رِیولین بھی شریک ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/1Dd1D
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Sokolowski

پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں یہودیوں کے ایک میوزیم ميں ایک نئی نمائش کا افتتاح منگل سے ہو رہا ہے۔ اس نئی نمائش میں پولینڈ میں یہودیوں کی ایک ہزار سالہ تاریخ کے تابناک اور پیچیدہ بودوباش کی عکاسی کی جا رہی ہے، جو ہولو کوسٹ کے نتیجے میں تقریبا مٹ کر ہی رہ گئی۔ دوسری عالمی جنگ سے قبل پولینڈ یہودی تہذیب و ثقافت کا ایک انتہائی قابل ذکر مرکز رہا تھا۔ تاہم جرمن نازی رہنما اڈولف ہٹلر کے دور اقتدار میں جہاں نہ صرف متعدد یورپی ممالک میں یہودیوں کی زندگيوں کو اجیرن بنا دیا گیا، وہیں مقبوضہ پولینڈ میں بھی اس اقلیت کو بری طرح سے نشانہ بنایا گیا۔

دوسری عالمی جنگ سے قبل پولینڈ میں 3.3 ملین یہودی آباد تھے لیکن نازیوں کی طرف سے ان کی نسل کشی کے بعد یہ تعداد صرف تین لاکھ رہ گئی۔ بعد ازاں کمیونسٹ دور میں یہودیوں کو مزید ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں ہولو کوسٹ میں زندہ بچ جانے والے بہت سے یہودی بھی وہاں سے فرار ہو گئے۔

Polin Museum in Warschau
سابقہ وارسا گھیٹو کے مقام پر بنائے گئے ’POLIN میوزیم آف دی ہسٹری آف پولش جیوز‘ کا مقصد اس مشرقی یورپی ملک میں یہودیوں کی تاریخ کو سمونے کی کوشش ہےتصویر: picture alliance/AP Photo/C. Sokolowski

سابقہ وارسا گھیٹو کے مقام پر بنائے گئے ’POLIN میوزیم آف دی ہسٹری آف پولش جیوز‘ کا مقصد اس مشرقی یورپی ملک میں یہودیوں کی تاریخ کو سمونے کی کوشش قرار دی جا رہی ہے۔ اگرچہ یہ میوزیم اپریل 2013ء سے عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا تاہم پولینڈ میں یہودیوں کی ایک ہزار سالہ تاریخ کے حوالے سے ایک خصوصی نمائش کا آغاز اٹھائیس اکتوبر سے کیا جا رہا ہے۔

پولینڈ میں یہودیوں کی آمد

منتظمین کا کہنا ہے کہ اس نمائش کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ قرون وسطی میں پولینڈ آن آباد ہونے والے یہودیوں نے وہاں کس طرح ترقی حاصل کی اور یہ ملک ان کا سب سے بڑا مسکن کس طرح بنا۔ اس کے علاوہ نازی دور حکومت میں یہودیوں کے قتل عام کی کہانیوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی نمائش کا حصہ ہے کہ وہ کس طرح ایک مرتبہ پھر سے اس یورپی ملک میں آباد ہوئے۔

یہ امر اہم ہے کہ جب یہودی قرون وسطیٰ میں پولینڈ سکونت اختیار کرنے وہاں پہنچے تو اس وقت حکمرانوں نے انہیں کھلے دل سے خوش آمدید کہا تھا۔ معاشرے کے مرکزی دھارے میں بھرپور شرکت کرتے ہوئے یہودیوں نے اس وقت نہ صرف تجارت بلکہ ثقافت اور سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس وقت کے کثیر الجہتی معاشرے میں تعصب کا نام و نشان تک نہ تھا۔ لیکن نازیوں نے اس امن و سکون کو غارت کر دیا۔ آج بھی دنیا بھر میں چودہ ملین یہودیوں میں سے نو ملین اپنی تاریخ کا تعاقب کرتے ہوئے پولینڈ تک جا پہنچتے ہیں۔

ایک عرصے تک پولینڈ میں عوامی منظر نامے پر یہودیوں کے شاندار ماضی کو نظر انداز کیا گیا، جس کی وجہ کمیونسٹ دور میں کیا گیا پراپیگنڈا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد پولینڈ کی نئی نسل کو اس بارے میں کوئی شعور ہی نہ تھا کہ ان کے ملک میں کبھی یہوديوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ دنیا کی نظر میں بھی پولینڈ کو یہودیوں کی تباہ کاریوں کے حوالے سے ہی یاد کیا جاتا ہے بلکہ اس پر غور نہیں کیا جاتا کہ ایک دور میں انہوں نے وہاں تابناک زندگی بسر کی۔

روایتی کہانیاں

پولینڈ کی ایک شہری ایگنی ایشکا روڈکافسکا کہتی ہیں کہ اگرچہ وہ یہودی نہیں لیکن یہ مذہب ان کی تاریخ کا حصہ ہے اور وہ اس بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اٹھائیس سالہ اس خاتون کا کہنا ہے کہ بعض اوقات میڈیا پر یہودیوں کے خلاف پراپیگنڈا کیا جاتا ہے لیکن یہ اہم ہے کہ حقیقت جاننے کی کوشش کی جائے۔ روڈکافسکا کی طرح پولینڈ میں نوجوان نسل اب اپنے ماضی کو جاننے کے بارے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی ہے، جس کے باعث لوگوں کی رائے بدلی ہے جبکہ پولینڈ کے بارے میں عالمی سطح پر بھی سوچ میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔

70 Jahre Aufstand im Warschauer Ghetto
پولینڈ میں دس جولائی سن 1941 کے روز نازی جرمن فوجی دستوں کی مداخلت کے ساتھ ہی Jedwabne کے علاقے میں مقامی یہودیوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع ہو گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

امریکی شہر نیو یارک کے ایک ہائی اسکول میں سوشل اسٹڈیز کے استاد شموئل افلیک کے بقول وہ پولینڈ کے بارے میں ایک ’روایتی کہانی‘ پر یقین رکھتے تھے کہ پولش عوام بنیادی طور پر یہودی مخالف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس روایتی کہانی میں کہا جاتا تھا کہ نازی برے تھے لیکن پولش بد تر تھے، ہولو کوسٹ پولینڈ میں اس لیے ہوئی کیونکہ نازیوں کو یہ احساس تھا کہ پولش عوام اتنے زیادہ یہودی مخالف ہیں کہ وہ ان کے ساتھ تعاون کریں گے۔ انہوں نے سابق اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق شامیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’پولش اپنے ماں کے دودھ کے ساتھ ہی سامیت دشمنی کا درس لیتے ہیں‘۔

شموئل نے البتہ واضح کیا کہ اگرچہ ایک عرصے تک انہوں نے ان کہانیوں پر سوال نہ اٹھایا لیکن جب وہ پولینڈ گئے تو ان کی یہ رائے بدل گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ پولش عوام سے ملنے کے بعد اور وہاں جا کر احساس ہوا کہ یہ تمام کہانیاں غیر حقیقی تھیں کیونکہ جرمن نازیوں نے پولینڈ میں یہودیوں کی نسل کشی سے قبل وہاں قبضہ کر لیا تھا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ شايد یہ لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ اس دور میں بہت سے پولش لوگ یہودیوں کا ساتھ دینے یا انہیں نازیوں سے بچانے کی وجہ سے ہلاک بھی کر دیے گئے تھے۔

پولین میوزیم میں اہتمام کردہ اس نمائش کی ڈائریکٹر باربرا کہتی ہیں کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ اس میوزیم میں آنے والوں کو صرف ہولو کوسٹ کے بارے میں ہی معلومات فراہم نہ کی جائیں بلکہ انہیں یہ احساس بھی دلایا جائے کہ ایک وقت میں یہ ملک یہودیوں کے لیے ایک جنت سے کم نہ تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں