1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پوزیشننگ سسٹم‘ کے تعین کے حامل دماغی خلیات کی دریافت

کشور مصطفیٰ7 اکتوبر 2014

امریکی محقق جان او کیف، ناروے کے مے برِٹ موزر اور ایڈور موزر کو امسالہ نوبل انعام برائے طب دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان سائنسدانوں نے اُن خُلیات کی دریافت کی ہے جو دماغ کے ’’پوزیشننگ سسٹم‘‘ کا تعین کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DRUU
تصویر: picture-alliance/dpa/Jonathan Nackstrand

اس انعام کے ساتھ ان تینوں کو تقریباً آٹھ لاکھ ستر ہزار یورو کے برابر کی رقم سے بھی نوازا گیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ طب کا نوبل انعام حاصل کرنے والے محققین دراصل اس امر کی زندہ مثال ہیں کہ سائنس کس طرح کام کرتی ہے۔

سائنسی تحقیق ایک خاص اصول کے تحت کی جاتی ہے۔ سائنسدان پہلے سے موجود کسی ریسرچ پر ایک طرح کی مچان بندی کرتے ہیں پھر اس موضوع پر اُس وقت تک تحقیق جاری رکھی جاتی ہے جب تک کہ تحقیق کے نتائج پر سائنسدانوں کا مکمل اتفاق نہ ہو جائے۔ ایسا ہی کیا ان تینوں سائنسدانوں نے بھی جنہیں امسالہ نوبل انعام برائے طب سے نوازا گیا ہے۔

جان او کیف امریکا میں پیدا ہوئے اور ان دنوں لندن میں اپنی ان متعدد سائنسی تحقیقات پر کام کر رہے ہیں جن کے سبب انہیں 1960ء کے عشرے میں بھی انعام دیا گیا تھا۔ انہوں نے1971ء میں مانٹریال کی مک گِل یونیورسٹی سے جسمانی نفسیات میں پی ایچ ڈی حاصل کرنے کے بعد لندن کے یونیورسٹی کالج سے پوسٹ ڈاکٹرل ڈگری حاصل کی۔ اب بھی وہ وہیں کام کر رہے ہیں۔

Nobelpreis 2014 Medizin John O'Keefe 6. Oktober
امریکی محقق جان او کیفتصویر: Reuters/Suzanne Plunkett

جان او کیف نے چوہوں کی عصبی سرگرمیوں کا مطالعہ کیا انہیں ریکارڈ کیا۔ اس تحقیق کے دوران انہیں پتا چلا کہ چوہوں کے دماغ کے خلیوں کے کچھ گروپوں کی سرگرمیوں کا انحصار اُن کے مقام یا وہ جہاں موجود ہوتے ہیں اُس جگہ پر ہوتا ہے۔ جان کیف نے ان مقامات کو سلز کا نام دیا اور چوہوں کی ذہنی ساخت یا ترکیب کو عصبی سرگرمیوں کے اندرونی میپ یا نقشے سے تعبیر کیا۔ اس تحقیقی جائزے کی روشنی میں سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ’ ذہن میں پیدا شدہ ماحول سے متعلق یہ اندرونی نقشے یا میپ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہم کہاں یا کس جگہ ہیں۔

اس تحقیق پر انعام پانے والے دو دیگر سائنسدان ناروے سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی ہیں۔ ان دونوں کی ملاقات اوسلو یونیورسٹی میں ہوئی تھی جہاں سے ان دونوں نے نیورو فیزیو لوجی یا اعصابی نظام کے افعال کے علم میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہیں امریکی نژاد سائنسدان جان او کیف کی ریسرچ کو جاننے اور اُسے سمجھنے کا موقع اُس وقت ملا جب یہ دونوں بھی لندن کے یونیورسٹی کالج سے منسلک ہوئے۔ لندن میں یہ جوڑا وزیٹینگ سائنسدانوں کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ مے برِٹ موزر اور ایڈور موزر نے بھی لندن کی لیبارٹری میں چوہوں پر تحقیق کی اور ایڈورڈ براہ راست جان کیف کی لیبارٹری کے ایک رکن کی حیثیت سے اس سے منسلک ہو گئے۔

Nobelpreis 2014 Medizin Kombolbild aus Agenturbild Schrift wegretuschiert mit Infografik abgesprochen John O'Keefe May-Britt Moser Edvard I Moser
امسالہ نوبل انعام برائے طب حاصل کرنے والے تینوں محققینتصویر: GettyImages/Jonathan Nackstrand

ان دونوں سائنسدانوں کو بھی اندازہ ہوا کہ چوہوں کے دماغ کا وہ حصہ جس میں کیف کے مطابق پلیس سیلز متحرک ہوتے ہیں اور جسے ہیپو کیمپس بھی کہا جاتا ہے، کو چوہوں کے دماغ کے دیگر حصوں کو نقصان پہنچائے بغیر نکالا جا سکتا ہے۔ یہ تحقیق دماغ کے ایک اور حصے ’ اینٹور ہینل کوٹیکس‘ کی تسخیر کا سبب بنی۔ دماغ کے اس حصے کے بارے میں تب تک بہت کم معلومات پائی جاتی تھیں۔ ناروے کے اس محقق جوڑے نے دماغ کے حصے ’ اینٹور ہینل کوٹیکس‘ کو الیکٹروڈز سے جوڑا اورانہوں نے دماغ کی ادراکی سرگرمی کی باقاعدہ آواز سُنی۔ مے برِٹ موزر نے 2011 ء میں کہا تھا کہ انہیں اس تجربے کے دوران پاپ کورن جیسی آوازیں سنائی دی ہیں۔ اُن کے بقول، " اس سارے عمل میں سب سے زیادہ حیرت انگیز اور دلچسپ چیز اس کی ریاضی تھی۔ اس عمل میں تین برابر سائز کے تکون کو تین حصوں میں اس طرح ترتیب سے رکھا جا سکتا تھا کہ یہ ایک کامل ہیکساگون یا مسدس کی شکل بن جائے" ۔

ان طبی محققین نے کہا ہے کہ انہوں نے چوہوں کے دماغ میں گلوبل پوزیشننگ سسٹم یا جی پی ایس کی طرح کے نقشے یا میپ کی دریافت کر لی ہے۔ ان کے مطابق دماغ کا حصہ ہیپو کیمپس ان جگہوں اور عمارتوں کی نشانیاں محفوظ کر لیتا ہے اور اس طرح ہم دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں ہمارا دماغ اُس جگہ اور ماحول کو پہچان لیتا ہے۔