1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ گزینوں کی رکن ملکوں میں تقسیم، نئی یورپی تجاویز

مقبول ملک27 مئی 2015

یورپی یونین نے غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر یورپی یونین میں داخل ہونے والے ہزار ہا پناہ گزینوں کی رکن ملکوں میں تقسیم سے متعلق اپنی ایک نئی تجویز کی تفصیلات کا اعلان کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FXES
تصویر: picture-alliance/dpa/Bundeswehr/PAO/Mittelmeer

بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں یورپی یونین کے صدر دفاتر سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یونین کی طرف سے اس نئی تجویز کا اعلان آج بدھ 27 مئی کے روز کیا گیا۔ اس تجویز کے تحت مشرق وسطٰی میں شام اور افریقہ میں اریٹریا سے تعلق رکھنے والے ان قریب 40 ہزار پناہ گزینوں کو آئندہ دو برس کے عرصے میں اس بلاک کے مختلف رکن ملکوں میں آباد کیا جائے گا، جو اب تک اٹلی اور یونان پہنچ چکے ہیں۔

یورپی یونین کے داخلہ امور کے نگران کمشنر دیمیتریس اَوراموپولوس نے برسلز میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے ایک ہنگامی طریقہء کار کے طور پر ایسی نئی تجویز تیار کر لی ہے، جس کے تحت پناہ کے متلاشی 40 ہزار غیر ملکیوں کو دیگر رکن ریاستوں میں آباد کیا جائے گا۔‘‘

دیمیتریس اَوراموپولوس نے کہا، ’’شام اور اریٹریا سے تعلق رکھنے والے ان پناہ گزینوں کو، جو اس وقت اٹلی اور یونان میں موجود ہیں، اگلے دو برس کے عرصے میں دیگر یورپی ریاستوں میں منتقل کر دیا جائے گا۔‘‘ ساتھ ہی یورپی یونین کے داخلہ امور کے کمشنر نے اپنی اس سابقہ تجویز کو بھی ایک بار پھر دہرایا کہ برسلز کی طرف سے یونین کی رکن ریاستوں سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان قریب 20 ہزار پناہ گزینوں کو بھی اپنے ہاں قبول کریں، جنہیں تحفظ کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پناہ کے متلاشی یہ غیر ملکی وہ ہوں گے، جنہیں یونین سے باہر کے ملکوں سے لا کر اس بلاک کی رکن ریاستوں میں آباد کیا جائے گا۔

اپنی اس نئی تجویز کی تفصیلات کا اعلان کرتے ہوئے دیمیتریس اَوراموپولوس نے زور دے کر کہا کہ یورپی کمیشن، جو 28 رکنی یورپی یونین کا انتظامی بازو ہے، اس بارے میں ایسا کوئی کوٹہ سسٹم تجویز نہیں کر رہا کہ غیر ملکی تارکین وطن کو ان کی آبادکاری کے لیے رکن ملکوں میں کس تناسب سے تقسیم کیا جانا چاہیے۔

شروع میں یورپی یونین کی خواہش تھی کہ اس بلاک کی رکن ریاستوں میں غیر ملکی پناہ گزینوں کی منصفانہ تقسیم کے لیے کوئی کوٹہ سسٹم طے کیا جائے۔ لیکن کئی یورپی ملکوں نے، جنہیں اقتصادی طور پر مشکل حالات میں اپنے ہاں تارکین وطن کی آمد کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہے، ایسے کسی بھی کوٹہ سسٹم کی شدید مخالفت شروع کر دی تھی۔

Flüchtlinge Mittelmeer Bootsflüchtlinge
یورپی یونین کی خواہش تھی کہ اس بلاک کی رکن ریاستوں میں غیر ملکی پناہ گزینوں کی منصفانہ تقسیم کے لیے کوئی کوٹہ سسٹم طے کیا جائےتصویر: Reuters/Marina Militare

اس پس منظر میں یونین کے داخلہ امور کے نگران کمشنر اَوراموپولوس نے آج برسلز میں کہا، ’’یہ فیصلہ ہر رکن ملک اپنے طور پر کر سکے گا کہ وہ اپنے ہاں کتنے تارکین وطن کو مہاجرین کا درجہ دے گا۔ اگر کوئی ملک اپنے ہاں زیادہ پناہ گزینوں کو آباد کرنا چاہے تو وہ ایسا کر سکے گا لیکن ہم اس بارے میں اپنی طرف سے یکجہتی کے اظہار کی کم سے کم سطح کو بہرحال یقینی بنانا چاہتے ہیں۔‘‘

یورپی یونین کے رکن ملک اور یورپی کمیشن یورپ کا رخ کرنے والے غیر قانونی تارکین وطن کے بارے میں بہتر مشترکہ عملی اقدامات کے مظاہرے پر گزشتہ ماہ اپریل میں اس وقت مجبور ہو گئے تھے، جب بحیرہ روم کے پانیوں میں غیر قانونی تارکین وطن کی ایک کشتی ڈوب جانے کے نتیجے میں 800 تک انسان ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ واقعہ بحیرہ روم میں غیر قانونی تارکین وطن کی ہلاکت کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔

گزشتہ 18 ماہ کے دوران زیادہ تر ماہی گیروں کی خستہ حال لیکن کھچا کھچ بھری ہوئی کشتیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہوئے پانچ ہزار سے زائد انسان بحیرہ روم کے پانیوں میں ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں کافی زیادہ تعداد شام میں خانہ جنگی سے متاثرہ شہریوں کی تھی۔