1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور: کوڑے سے بجلی کی پیداوار کا اولین منصوبہ

دانش بابر، پشاور10 اپریل 2015

پاکستان میں اب کوڑا کرکٹ گندگی اور بدبو پیدا کرکے لوگوں کی اذیت کا باعث نہیں بنے گا بلکہ اب اسی ناکارہ کوڑے کو استعمال میں لاکر بجلی پیدا کی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/1F5n4
تصویر: DW/D. Babar

خیبر پختونخوا کے دارلحکومت پشاور میں قائم ایک نجی یونیورسٹی (CECOS) اور ڈائریکٹریٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے باہمی اشتراک سے اسٹیم پاور پلانٹ کے ذریعے فاضل ٹھوس کوڑے سے بجلی تیار کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ 33 لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہونے والے اس پلانٹ سے ابتدائی طور پر15 کلو واٹ تک بجلی حاصل کی جاسکتی ہے، جس سے قریب 625 انرجی سیورز روشن ہوسکتے ہیں۔

Pakistan Strom aus Müll Projekt in Peshawar
33 لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہونے والے اس پلانٹ سے ابتدائی طور پر15 کلو واٹ تک بجلی حاصل کی جاسکتی ہےتصویر: DW/D. Babar

حیات آباد انڈسٹریل اسٹیٹ میں قائم کردہ اس چھوٹے اور ماحول دوست پاور پلانٹ کے بارے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ریاض محمد کا کہنا تھا کہ اس پلانٹ کی مدد سے روزانہ چوبیس گھنٹوں میں تقریبا 72 ٹن فاضل کچرے کو استعمال میں لایا جاسکتا ہے، جس سے ناصرف ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئے گی، بلکہ بجلی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔

ڈاکٹر ریاض محمد کہتے ہیں، ''اگر ہم پشاور کی بات کریں تو ایک دن میں قریب 900 گھرانوں سے اتنی مقدار میں کوڑا کرکٹ حاصل کیا جاسکتا ہے، جس کو جلا کراوسطا اکیس(21) گھرانوں کی بجلی کی ضرورت پوری کی جاسکتی ہے، جس وہ ایک پنکھا اور دو ٹیوب لائٹ آسانی کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں۔‘‘

تجرباتی طور پر بنائے گئے اس پاور پلانٹ کے بارے میں ڈاکٹر ریاض مزید کہتے ہیں کہ اس پلانٹ میں کچرے کو ایندھن کے طور پر جلایا جاتا ہے، جس سے بھاپ حاصل کی جاتی ہے اور پر اسی بھاپ یا سٹیم کو بجلی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔

Pakistan Strom aus Müll Projekt in Peshawar
اس پلانٹ سے پیدا ہونے والی بجلی پر فی یونٹ خرچہ تقریبا 30 روپے ہےتصویر: DW/D. Babar

سیکریٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی خیبر پختونخوا فرح حامد خان کا سولَڈ ویسٹ پاور پلانٹ کے بارے میں کہنا ہے، ’’یہ ایک بہت ہی اچھی کاوش ہے، اس مد میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس پاور پلانٹ سے بڑی سطح پر فائدہ حاصل کریں۔‘‘

فرح حامد مزید کہتی ہیں کہ یہ ان کے ادارے اور CECOS یونیورسٹی کا مشترکہ منصوبہ تھا، جو ایک سال کی مدت میں کامیابی کے ساتھ تکمیل کو پہنچا۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس قسم کے مزید پراجیکٹس پر کام ہونے چاہیں تاکہ ناصرف پشاور بلکہ ملک بھر میں موجود کوڑا کرکٹ کے انبار کو بہتر طور پر ٹھکانے لگایا جاسکے۔

ڈاکٹر ریاض محمد کے بقول گو کہ یہ ایک چھوٹا پلانٹ ہے اس لیے اس وقت اس پلانٹ سے پیدا ہونے والی بجلی پر فی یونٹ خرچہ تقریبا 30 روپے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس طرح کے پاور پلانٹ صنعتی سطح بنائے جائیں تو فی یونٹ خرچ 15 روپے تک لایا جا سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق وسیع پیمانے پر اس قسم کے منصوبوں سے ناصرف ملک کو صاف ستھرا رکھنے میں مدد ملے گی بلکہ دور حاضر میں پاکستان کو درپیش بجلی کی سنگین بحران میں کمی بھی لائی جاسکتی ہے۔