1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور: دہشت گردی کے خلاف جدید ٹیکنالوجی سے مدد

دانش بابر، پشاور15 جنوری 2015

پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے وحشیانہ حملے کے بعد اس طرح کے مزید واقعات کی روک تھام کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر منصوبہ بندی جاری ہے۔ انہی میں سے ایک ون کلک ایس او ایس سروس بھی ہے۔

https://p.dw.com/p/1ELDa
تصویر: Hiwaas

مستقبل میں کسی دہشت گردانہ حملے کی صورت میں فوری مدد حاصل کرنے کے لیے خیبر پختونخوا پولیس نے ون کلک ایس او ایس (SOS)سروس شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سروس کو استعمال کرنے والا اپنے موبائل سیٹ پر محض ایک کلک کر کے مقامی پولیس کو الرٹ کر سکتا ہے۔

پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق اس سروس کی مدد سے کوئی بھی شخص، یا ادارہ حملے کی زد میں آنے کی صورت میں صرف ایک کلک کر کے فوری طور پر پولیس کی مدد حاصل کر سکے گا۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس موبائل ایپلیکیشن کے بٹن پر ایک کلک سے خود بخود قریب دس مختلف پولیس تھانوں کو الرٹ بھیجا جا سکے گا۔ یہ الرٹ ایس ایم ایس اور ٹیلی فون کال کی شکل میں ہوگا، اور اس میں حملے کی جگہ کی صحیح پوزیشن اور پتے کے بارے میں تفصیلات بھی شامل ہوں گی: ’’ابتدائی طور پریہ سروس پشاور کے تمام سکولوں اور تعلیمی اداروں کے لیے شروع کی جا رہی ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ اس سروس کی مدد سے بڑی حد تک دہشت گردانہ واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

اس سروس کو استعمال کرنے والا اپنے موبائل سیٹ پر محض ایک کلک کر کے مقامی پولیس کو الرٹ کر سکتا ہے
اس سروس کو استعمال کرنے والا اپنے موبائل سیٹ پر محض ایک کلک کر کے مقامی پولیس کو الرٹ کر سکتا ہےتصویر: DW/D. Baber

دوسری طرف مردان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان سافٹ ویئر انجینئر اسداقبال نے ’پلیس ایس ایم ایس‘ (Place SMS) کے نام سے ایک ایسا موبائل فون ایپ بنایا ہے جو خودبخود صارف کے گھر والوں کو اس کی نقل وحرکت سے آگاہ کرتا ہے۔ اسد اقبال کا اس ایپلیکیشن کے بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا ہے: ’’یہ ایپ لوکیشن کے مطابق، جو جومقامات اس کو بتائے جاتے ہیں، اس جگہ پہنچ کر خودکار طریقے سے بتائے گئے فون نمبر یا نمبروں پر پیغام بھیج دیتا ہے۔‘‘

اسد اقبال کہتے ہیں کہ سانحہ پشاور کے بعد والدین کو ہر وقت یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کے بچے اسکول بخیریت پہنچ چکے ہیں یا نہیں؟ پلیس ایس ایم ایس کی مدد سے اب والدین کو اپنے بچوں کی ہر موومنٹ کا آسانی کے ساتھ پتہ چل سکے گا۔ یہ سافٹ وئیر دوسرے موبائل ایپلیکیشن کی طرح آسانی کے ساتھ ہر کوئی اپنے اینڈرائڈ فون پر ڈاؤن لوڈ کر سکتا ہے۔ اسد اقبال کا مزید کہنا ہے کہ اس ایپ کا بہتر استعمال یہ ہوسکتا ہے کہ اسکول انتظامیہ کی طرف سے ہر اسکول بس کو یہ ایپ مہیا کی جائے جس میں تمام بچوں کے والدین کے فون نمبر موجود ہوں، تو اس طرح کم ازکم والدین بچوں کے اسکول میں آمد اور واپسی سے آگاہ ہوں گے۔
16 دسمبر کو اسکول حملے میں شہید ہونے والے طالب علم ایمل جان کے والد عتیق الرحمان کا کہنا ہے کہ یہ سب حکومت کی جانب سے اچھے اقدامات ہیں لیکن اس قسم کے منصوبے پہلے سے بنانے چاہییں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر سانحے کے بعد حکومت کی طرف سے اس قسم کے پروگرام اور دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ دیرپا نہیں ہوتے: ’’میرا دوسرا چھوٹا بیٹا(احمد جان) اب بھی اسی اسکول میں نویں کلاس کا طالب علم ہے۔ ایس او ایس اور پلیس ایس ایم ایس دونوں اچھی کاوشیں ہیں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کیونکہ جو لوگ فوجیوں کے اسکول پر حملہ کر سکتے ہیں تو ان کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔ اس قسم کے پروگرام اور سافٹ ویئرز کی نسبت دہشت گردوں کا خاتمہ زیادہ ضروری ہے۔‘‘
ایک نجی سکول کے مالک قائد خان کا کہنا ہے کہ اس قسم SOS) اورPlace SMS ) کے سافٹ وئیر سے کم ازکم ان کو یہ تسلی ہوگی کہ وہ کسی بھی ناخوشگوار لمحے کی صورت میں پولیس کے ساتھ آسانی کے ساتھ رابطہ کر سکتے ہیں۔ قائد خان کے مطابق وہ اپنے اسکول کی حفاظت کے لیے تمام تر انتظامات کر چکے ہیں تاہم ان کے خیال میں شدت پسندوں کے ساتھ مقابلہ ان کے بس کی بات نہیں۔