1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پریوں اور جنّوں کی کہانیاں، نیا میوزیم

امجد علی27 فروری 2015

جرمن شہر کاسل میں قائم ’گریم برادرز میوزیم‘ پچپن سال تک دیو مالائی کہانیوں کے شائقین کے لیے کھلا رہا اور پھر گزشتہ سال اکتوبر میں بند کر دیا گیا تاکہ 2015ء کے وسط تک اسی شہر میں ایک نیا گریم عجائب گھر تعمیر کیا جا سکے۔

https://p.dw.com/p/1EiuJ
جرمن شہر کاسل میں دونوں گریم بھائیوں کے یادگاری مجسمے
جرمن شہر کاسل میں دونوں گریم بھائیوں کے یادگاری مجسمےتصویر: picture-alliance/dpa/U. Zucchi

دُنیا کی تقریباً تمام لوک داستانوں کی طرح جرمن بھائیوں یاکوب اور وِلہیلم گریم کی لوک کہانیاں بھی ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے ...‘‘ کے اُس مشہور جملے سے شروع ہوتی ہیں، جو سننے اور پڑھنے والے کو پلک جھپکتے میں رنگا رنگ اور دلچسپ واقعات کی کسی اَن دیکھی دُنیا میں پہنچا دیتا ہے۔

گریم برادران کی مرتب کردہ کہانیوں میں سُرخ ٹوپی والی اُس لڑکی کی کہانی بھی شامل ہے، جو جنگل میں اپنا راستہ بھول جاتی ہے اور ایک بھیڑیے کی خوراک بننے سے بال بال بچتی ہے
گریم برادران کی مرتب کردہ کہانیوں میں سُرخ ٹوپی والی اُس لڑکی کی کہانی بھی شامل ہے، جو جنگل میں اپنا راستہ بھول جاتی ہے اور ایک بھیڑیے کی خوراک بننے سے بال بال بچتی ہےتصویر: Claudia Paulussen/Fotolia

جرمن بچے تو اپنے والدین اور بڑے بوڑھوں سے گریم برادران کی پُرلطف کہانیاں سُنانے کی فرمائشیں کرتے ہی رہتے ہیں لیکن اِن دوبھائیوں کی مرتب کی ہوئی جرمن لوک داستانیں دُنیا کے باقی حصوں میں بھی شوق سے پڑھی اور سُنی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جرمن مصلح مارٹِن لُوتھر کی انجیل کے ساتھ ساتھ جس جرمن کتاب کا سب سے زیادہ غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے، وہ ہے، ’گریم براداران کی جرمن لوک کہانیاں‘، جنہیں دُنیا کی کم از کم 150 مختلف زبانوں اور بولیوں میں منتقل کیا جا چکا ہے۔

اِن دونوں بھائیوں کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اُن کے نام پر جرمن شہر Kassel میں، جہاں اِن دونوں بھائیوں نے تیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزارا تھا، ’گریم برادرز میوزیم‘ کے نام سے ایک چھوٹا سا عجائب گھر بنایا گیا۔ اِس میں بچوں کی کہانیوں اور لوک داستانوں کی تصاویر کا دُنیا بھر میں سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے یعنی کوئی 35 ہزار جِلدیں۔

’گریم براداران کی جرمن لوک کہانیاں‘ کو دُنیا کی کم از کم 150 مختلف زبانوں اور بولیوں میں منتقل کیا جا چکا ہے
’گریم براداران کی جرمن لوک کہانیاں‘ کو دُنیا کی کم از کم 150 مختلف زبانوں اور بولیوں میں منتقل کیا جا چکا ہےتصویر: ullstein bild

1959ء میں شہر کاسل اور گریم برادران انجمن کی جانب سے قائم کیے گئے اِس عجائب گھر کو جرمن باشندے ہی نہیں بلکہ دُنیا بھر سے بڑی تعداد میں آنے والے شائقین بھی شوق سے دیکھتے رہے۔ یہ سیاح کہانیوں کی خوبصورت اور باتصویر کتابوں کا اور لوک داستانوں سے متعلق تصاویر کا گزشتہ دو صدیوں کے دوران اکٹھا کیا گیا اتنا بڑا ذخیرہ دیکھ کر دَنگ رہ جاتے تھے۔

عجائب گھر میں رکھی گئی تصاویر میں بہادُر شہزادے اور حسین شہزادیاں بھی تھیں، شرارتی بونے اور خوفناک دیو بھی، عجیب و غریب صلاحیتوں کے حامل جِنّ اور پریاں بھی اور انسانوں کی طرح بولنے کی اہلیت رکھنے والے جانور بھی۔ تصاویر کے ساتھ ساتھ اِس میوزیم میں گریم برادران کی زندگی سے متعلق بھی تمام تفصیلات جمع کی گئی تھیں، جن سے اِن دونوں بھائیوں کے زبان کی تحقیق سے متعلق منصوبوں اور اُن کی سیاسی سرگرمیوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بیرونی دُنیا میں گریم براردان کی مرتب کردہ کہانیوں کے سب سے زیادہ شیدائی غالباً جاپان میں ہیں، جہاں ایک اندازے کے مطابق 80 فیصد بچے اِس نام یعنی Grimm سے واقِف ہیں۔ چند سال پہلے ’گریم برادرز میوزیم‘ نے لوک داستانوں کی تصاویر پر مبنی ایک نمائش منظم کی، جس نے جاپان کے سات مختلف شہروں کے ساتھ ساتھ چینی دارالحکومت بیجنگ میں بھی شائقین کو محظوظ کیا۔

ان کہانیوں میں انسانوں کی طرح بولنے کی اہلیت رکھنے والے جانوروں کا تذکرہ بھی جگہ جگہ ملتا ہے
ان کہانیوں میں انسانوں کی طرح بولنے کی اہلیت رکھنے والے جانوروں کا تذکرہ بھی جگہ جگہ ملتا ہےتصویر: ullstein bild - Archiv Gerstenberg

مشرقِ بعید میں گریم براداران کانام شاید اِس وجہ سے زیادہ معروف ہو کہ جرمن صوبے ہیسے کے حکام اُس پورے خطّے میں اپنی تشہیر کرتے ہوئے وہاں کے باشندوں کو یہ کہہ کر اپنے صوبے کی سیاحت کی دعوت دیتے ہیں کہ صوبہ ہیسے دیو مالائی داستانوں کی سرزمین ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کئی مشہور جرمن لوک کہانیوں نے بنیادی طور پر کسی اور سرزمین میں جنم لیا تھا۔ مثلاً اُس شہزادی کی کہانی، جسے ایک جادوگرنی اپنے جادو کے زور سے ایک سو برس کے لیے سُلا دیتی ہے یا پھرسُرخ ٹوپی والی اُس لڑکی کی کہانی، جو جنگل میں اپنا راستہ بھول جاتی ہے اور ایک بھیڑیے کی خوراک بننے سے بال بال بچتی ہے۔

یہ دونوں کہانیاں گریم بھائیوں سے بھی ایک سو سال پہلے فرانس میں لکھی گئی تھیں۔ ویسے گریم برادران کی مرتب کردہ جرمن لوک کہانیوں کی جڑیں مصر اور ہندوستان تک بھی پھیلی ہوئی ہیں۔

پچپن سال تک اس میوزیم کے دروازے دنیا بھر کے شائقین کے لیے کھلے رہے تاہم اکتوبر 2014ء میں اسے بند کر دیا گیا تاکہ اسی شہر میں ’گریمز ورلڈ‘ کے نام سے ایک نیا عجائب گھر تعمیر کیا جا سکے۔ ان دنوں تقریباً بیس ملین یورو کی لاگت سے اس نئے میوزیم کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ اس سال کے وسط تک یہ میوزیم مکمل ہو جائے گا۔

اس نئے میوزیم کا رقبہ تقریباً سولہ سو مربع میٹر ہو گا اور اسے دیکھنے کے لیے جانے والے شائقین کی تعداد بھی اب تک کے ’گریم برادرز میوزیم‘ مقابلے میں تین گنا ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔