1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پرانی کاریں، غریب ملک کے امیروں کا مہنگا شوق

امتیاز احمد27 مئی 2015

پاکستان کے امیر طبقے میں کلاسیکی ماڈلز کی قدیم اور نایاب کاریں جمع کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ افغان بادشاہ کی رولز رائس ہو یا بھارت کے آخری وائسرائے کی کار ، ان کے سامنے پیسہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔

https://p.dw.com/p/1FX3v
Pakistan Oldtimer Schau in Islamabad
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B.K. Bangash

پاکستان میں نایاب اور کلاسک کاروں کے کلب کے صدر محسن اکرام کے مطابق کاریں جمع کرنے والے افراد اس خطے میں گزشتہ صدی کی تاریخ کو محفوظ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا‍ تھا کہ پاکستان کے امیر طبقے میں کلاسک کاروں کو خریدنے کا شوق بڑھتا جا رہا ہے اور ان کے کلب کے اراکین کی تعداد دس ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ اس کلب کی طرف سے مختلف ایونٹس کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔

ان ایونٹس کے تحت نہ صرف قیمتی اور پرانی کاروں کی نمائش بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں کار ریلیوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ مالکان کو اپنی قیمتیں کاریں منظر عام پر لانے کا موقع مل سکے۔ محسن اکرام کے مطابق اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ بیرونی دنیا کی توجہ پاکستان کی طرف مرکوز ہو اور وہ جان سکیں کہ پاکستان ایک ہمہ جہت ملک ہے۔

Pakistan Oldtimer Schau in Karachi
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Adil

پاکستانی تاجر راجہ مجاہد ظفر بھی کاروں کے اسی کلب کے رکن ہیں اور وہ اس وقت چالیس کلاسیک کاروں کے مالک ہیں۔ ان میں سے سب سے پرانی کار سن 1914ء کی ہے۔ اسلام آباد میں راجہ مجاہد کے شاندار گھر میں کھڑی امریکی فورڈ کمپنی کی اس کار کا ماڈل ٹی ہے۔ مجاہد ظفر نے اپنے شوق کی تسکین کے لیے اپنے گھر میں ایک حصہ مخصوص کر رکھا ہے۔ مجاہد ظفر کا کہنا ہے، ’’آپ تصور میں لائیں کہ سڑک پر اس زمانے کی کار چل رہی ہے، جب یہ خطہ برطانوی کالونی تھا۔ ایسا منظر آپ کو پرانی فلموں ہی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ وہ تاریخی سفر ہوتا ہے، جسے آپ انجوائے کرتے ہیں۔‘‘

تاہم اس مہنگے شوق کا سب سے مشکل مرحلہ ان کاروں کے اسپیئر پارٹس کا حصول ہوتا ہے۔ ان کاروں کے اسپیئر پارٹس خصوصی طور پر امریکا یا پھر یورپی ملکوں سے منگوائے جاتے ہیں اور اس مقصد کے لیے غیر ملکی اخباروں میں اشتہارات بھی دیے جاتے ہیں۔ چند برس پہلے کراچی کے تاجر کریم چھاپڑا کو اپنی 1924ء کی رولز رائس کے لیے ڈسپلے گھڑی چاہیے تھی، جو انہیں چار سو پاؤنڈز میں لندن سے ملی تھی۔

Pakistan Oldtimer Schau in Islamabad
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B.K. Bangash

چھاپڑا کی اسی کار کو سن 2012ء میں کویت میں ہونے والے پرانی کاروں کے مقابلے میں پہلا انعام ملا تھا اور 1919ء کی ایک امریکی گاڑی کو دوسرا انعام دیا گیا تھا۔ چھاپڑا کے پاس جو رولز رائس موجود ہے، وہ ماضی میں ریاست بہاولپور کے نواب صادق محمد خان عباسی کی ملکیت رہ چکی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد بہاولپور ریاست پاکستان کا حصہ بنی۔ بھارت کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور محمد علی جناح پاکستان کی آزادی کی تقریب میں شرکت کے لیے اسی کار پر سوار ہو کر گئے تھے۔ اس کار کی قیمت تین لاکھ پاؤنڈز بتائی جاتی ہے۔

نواب صادق محمد خان عباسی کے پوتے سلیمان عباسی بھی اسی کلب کے ممبر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ نواب صادق محمد خان عباسی کے پاس تقریباﹰ ایک سو کاریں تھیں، جن میں سے زیادہ تر کو نیلامی کے ذریعے فروخت کر دیا گیا تھا۔

محسن اکرام کے مطابق پاکستان میں کلاسک کاروں کی ابھرتی ہوئی مارکیٹ کی مالیت تقریباﹰ گیارہ ملین ڈالر ہے۔ یہ مالیت ایک ایسے ملک کے لیے، جہاں کی زیادہ تر آبادی کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے بھی کم ہے،بہت زیادہ ہے۔