1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی ہاکی ٹیم کے کھلاڑی کیوں جذباتی ہوئے؟

طارق سعید،لاہور15 دسمبر 2014

اتوار کی شب پاکستان اور جرمنی کا چیمپئنز ٹرافی فائنل پاک بھارت سیمی فائنل کے قضیے کے سائے میں کھیلا گیا۔ تاہم اس معاملے پر پاکستان میں ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1E52T
تصویر: PAUL CROCK/AFP/Getty Images

پاکستان نے بیس برس پہلے جرمنی کو فائنل میں ہرا کر آخری بار چیمپئنز ٹرافی کا ٹائٹل جیتا تھا لیکن بھونیشور میں لاہور کی تاریخ دوہرائی نہ جا سکی اور جرمنی نے دو صفر سے معرکہ مار لیا۔ سیمی فائنل میں بھارت کو بھارت میں ہرانے کے جشن کا بوجھ پاکستانی ٹیم فائنل میں نہ اٹھا سکی اور چاروں کوارٹرز میں گول کرنے سے محروم رہی۔

پاکستان میں ہاکی کے سرکردہ صحافی زاہد مقصود کہتے ہیں، ’’پاکستانی کھلاڑیوں نے جشن مناتے ہوئے سفارتی حدود سے تجاوز کیا۔ ان کے اشارے نازیبا تھے اور اس کی ذمہ دار پاکستان ہاکی فیڈریشن اور ٹیم انتظامیہ بھی ہے، جو کھلاڑیوں کو دیار غیر میں ہار جیت کے آداب سکھانے سے قاصر رہی۔‘‘

Champions Trophy 2014 Hockey
جیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں جرمنی کی ٹیم فاتح رہیتصویر: AFP/Getty Images/P. Singh

اس واقعہ کے بعد پاکستان میں میڈیا سمیت زیادہ ترعوامی ہمدردریاں پاکستان ہاکی ٹیم کو ملی ہیں۔ کھیلوں کے تجزیہ کار حسن چیمہ کہتے ہیں، ’’پاکستانی کھلاڑیوں میں جیت کے بعد بعض کا رد عمل غیر مناسب تھا مگر ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ ایک نوجوان ٹیم تھی جو دربدر ہو کر چیمپئنز ٹرافی کھیلنے بھارت گئی اور بھارت کو بھارت میں سنسنی خیز میچ ہرانا ان کھلاڑیوں کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس کو سمجھنے کی کسی نے ضروت محسوس نہیں کی اور اس کے خلاف بھارت میں جو ردعمل سامنے آیا وہ غیر ضروری تھا۔ حسن چیمہ کے مطابق رائی کا پہاڑ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس ضمن میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے مشہور اسپورٹس کامنٹیٹر ریحان الحق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کھیلوں میں جیت کے بعد شرٹس اتار کر جشن منانا عام سی بات ہے اور بھارت کی کرکٹ ٹیم کے کپتان سارو گنگولی نے لارڈز کرکٹ گراونڈ پر یہ کام کیا تھا۔ اس لیے پاکستانی کھلاڑیوں کے جذبات کسی نے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ انیس سو بہتر کے میونخ اولمپکس میں جرمنی سے فائنل ہارنے کے بعد سے جب پاکستانی کھلاڑیوں نے امپائر کے فیصلوں پر احتججاج کرتے ہوئے اپنے میڈلز جوتوں میں لیے تو اس وقت شہناز شیخ کھلاڑی کی حیثیت سے پیش پیش تھے۔

Flash-Galerie Sport Jahresrückblick 2010
سیمی فائنل میں بھارت کو شکست دینے کے بعد کچھ پاکستانی کھلاڑیوں نے خوشی مناتے ہوئے کچھ ’نازیبا حرکات‘ بھی کیںتصویر: AP

زاہد مقصود کہتے ہیں کہ جشن کے تنازعہ کا پاکستان کو فائنل میں نقصان ہوا، ’’اس کے دو بہترین کھلاڑی توثیق حیدر اور امجد علی پابندی کے باعث فائنل نہ کھیل سکے۔ ٹیم دباؤ میں کھیلی اور اس نے بیس سال بعد چیمپئنز ٹرافی جیتنے کا موقع ضائع کر دیا۔ حالانہ یہ ایک ایسا فائنل تھا جسے پاکستانیوں نے شارجہ میں آفریدی کی بیٹنگ پر ترجیح دی۔‘‘ ریحان الحق کے مطابق ہاکی کا غلط وجہ سے بھی دوبارہ شہ سرخیوں میں آنا اس کھیل کے مستقبل کے لیے بہتر ہو سکتا ہے۔

پاکستان ہاکی ٹیم کا یہ دورہ کراچی کے ایک تاجر ندیم عمر کی مالی معاونت کا مرہون منت رہا، جنہوں نے اپنی جیب سے ٹیم کے لیے قیام و طعام اور سفری اخراجات برداشت کیے۔ مگر جونہی پاکستان نے بھارت کو شکست دی تو پاکستانی حکمرانوں اور سیاست دانوں نے اسے مبارکباد دینے میں دیر نہ کی۔ اسے کہتے ہیں شکست یتیم ہوتی ہے جیت کے باپ بہت مل جاتے ہیں۔