1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی فوج کی بمباری، درجنوں بچے اور خواتین بھی ہلاک

امتیاز احمد22 جولائی 2014

پاکستانی فوج کے آپریشن میں ابھی تک عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کی دعوے کیے گئے ہیں لیکن فوج کی بمباری میں درجنوں شہری، خواتین اور بچے بھی ہلاک ہو چکے ہیں اور ایسی خبریں کم ہی منظر عام پر لائی گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1CgbG
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

گزشتہ ہفتے پاکستانی ایئرفورس کے جنگی طیاروں نے شمال مغربی علاقے کے ایک گاؤں میں بارش کی طرح میزائل برسائے تھے۔ اس کے بعد فوج کی طرف سے طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف ایک اور بڑی کامیابی کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اب ایسی خبریں منظر عام پر آ رہی ہیں کہ فضائی حملوں میں خواتین اور بچے بھی مارے جا رہے ہیں۔ اس پر نہ صرف غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے بلکہ یہ خطرہ بھی ہے کہ اس طرح شدت پسندوں کی ایک نئی نسل پیدا ہو سکتی ہے۔

فوج کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ شوال کے علاقے میں بھاگتے ہوئے پینتیس ’عسکریت پسندوں‘ کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ لیکن مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق جمعرات کو ہونے والی اس بمباری میں 37 شہری مارے گئے تھے، جن میں 20 خواتین اور 10 بچے شامل تھے۔

شوال کے رہائشی ملک میرزال خان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے ٹیلیفون کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سولہ جولائی کو زوئی سیدگی میں پاکستانی فضائیہ نے بمباری کا آغاز رات ایک بجے سے کچھ دیر پہلے کیا اور وہ اس وقت روزہ رکھنے کی تیاریوں میں تھے۔ میرزال خان کے بقول یہ بمباری کئی گھنٹے تک جاری رہی اور گیارہ گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ میرزال خان اس اعلیٰ سطحی امن کونسل کا بھی حصہ تھے، جو آپریشن سے پہلے امن کے لیے کوششیں کرتی رہی ہے۔ میرزال خان کے مطابق انہوں نے ہلاک ہونے والے مقامی شہریوں کی فہرست بھی تیار کی ہے اور ان میں سے کسی کا بھی عسکریت پسندی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میری تیرہ سالہ بیٹی، میرے بھائی، اس کی بیوی اور اس کے دو بچوں کو ہلاک کیا گیا۔‘‘

ایک ستائیس سالہ ٹرک ڈرائیور نور ولی خان نے بتایا، ’’ ہمارے گھر پر بمباری کرتے ہوئے میری ماں اور دو بھابیوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔‘‘ اسی طرح تین دیگر عینی شاہدیں نے بھی ان ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔

اس واقعے کے بعد پاکستان کے اندر ہی نقل مکانی کرنے والے مقامی قبائلیوں کے غم و غصے میں اضافہ ہوا ہے اور انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپریشن جلد ختم نہ ہونے کی صورت میں اسلام آباد کی طرف مارچ کیا جائے گا۔

فوج کے مطابق شمالی علاقے میں جاری آپریشن میں اب تک تقریباﹰ پانچ سو ’عسکریت پسندوں‘ کو ہلاک کیا جا چکا ہے لیکن آزاد ذرائع سے ان دعوؤں کی تصدیق ناممکن ہے۔ اس فوجی آپریشن کو نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ پاکستانی میڈیا کی بھی وسیع تر حمایت حاصل ہے۔

انسانی ڈھال

پاکستانی فوج نے ان شہری ہلاکتوں پر کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے لیکن ایک سینئر سکیورٹی عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں کو علاقہ خالی کر دینے کی وارننگ دی گئی تھی۔ اس افسر کا کہنا تھا، ’’اگر کوئی دہشت گرد اپنی فیملی کے ساتھ رہ رہا ہے اور آپریشن کے دوران بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑ رہا تو کیا کیا جا سکتا ہے، ہمارے پاس دہشت گردوں سے متعلق مضبوط خفیہ معلومات ہیں اور ہم انہی کے خفیہ ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، آپ اسے کولیٹرل ڈیمیج کہیں یا کچھ اور ؟۔‘‘ اس فوجی اہلکار کا مزید کہنا تھا، ’’اگر کوئی دہشت گرد اپنے خاندان کو ہیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کر رہا ہے تو پھر آپ فوج سے کیا توقع رکھتے ہیں ؟۔‘‘

’سچ سامنے آئے گا‘

مقامی رہائشیوں کے مطابق انہوں نے مقامی آلات اور ٹریکٹروں کی مدد سے ملبے تلے دبی لاشوں کو نکالا اور علاقے میں حکومت مخالف جذبات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق اس آپریشن کا الٹا اثر بھی ہو سکتا ہے اور انتقامی کارروائیوں کے لیے ایک نئی نسل عسکریت پسندی کی طرف مائل ہو سکتی ہے۔ ایک اٹھائیس سالہ دکاندار ولی محمد کا کہنا تھا کہ آرمی کے دعوؤں کے باوجود حملوں کی نوعیت سے متعلق حقائق ایک دن ضرور سامنے آئیں گے۔ ایک پشتو کا محاورہ بولتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ ’’آپ ایک انگلی کے ساتھ سورج کو نہیں چھپا سکتے‘‘۔

ملک میر زال خان کا کہنا ہے کہ شوال کے مقامی عمائدین اس فضائی بمباری کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں، ’’ہم شمالی وزیرستان میں رہنے والے دیگر لوگوں کے لیے اس طرح کے حملے نہ کرنے کی یقین دہانی چاہتے ہیں تاکہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ رونما نہ ہو۔‘‘