1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی فوج حکومت پر قبضہ نہیں کرے گی، ذرائع

عدنان اسحاق20 اگست 2014

پاکستان میں سیاسی صورتحال گزشتہ ایک ہفتے سے انتہائی کشیدہ ہے۔ اس دوران وزیر اعظم نواز شریف کے ایک وفد کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ہونے والی ملاقات پر حکومتی حلقوں کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CxOx
تصویر: ASIF HASSAN/AFP/Getty Images

نام خفیہ رکھنے کی شرط پر ایک حکومتی اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ فوج نے وزیر اعظم نواز شریف کو ان کی حکومت نہ گرانے کی یقین دہانی کرائی ہے اور فوج کا اقتدار میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ بیان کے مطابق فوج چاہتی ہے کہ حکومت سیاسی مسائل کو خود حل کرتے ہوئے اپنے پانچ سال پورے کرے۔ تاہم دوسری جانب فوج نے شریف انتظامیہ سے کہا ہے کہ بدلے میں وہ عسکری قوتوں کے ساتھ بھرپور انداز میں تعاون بھی کرے۔

نواز حکومت کے داخلی ذرائع نے بتایا ہے کہ اس طرح وزیر اعظم کے وفد کی جنرل راحیل شریف کے ساتھ ہونے والی اس ملاقات کا اختتام ایک اچھی اور ایک بری خبر کے ساتھ ہوا۔ تاہم تازہ ملاقات پر عسکری ذرائع کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ فوج کے ترجمان جنرل عاصم باجوہ نے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں مظاہرین کو حکومتی اداروں کا احترام کرنے کی یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ اس سیاسی بحران کو نتیجہ خیز مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔

Anhänger von Imran Khan Parteivorsitzender PTI Pakistan
تصویر: picture-alliance/AP Photo

گزشتہ ہفتے سے ہزارہا شہری شریف حکومت کے خلاف دارالحکومت میں سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ اس دوران وزیر اعظم دو مرتبہ اپنے ایلچی بری فوج کے سربراہ کے پاس بھیج چکے ہیں۔ ان ملاقاتوں سے وزیر اعظم نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے موجودہ احتجاج کے پس پردہ فوج تو نہیں ہے اور کیا فوج حکومت گرانے کی کوشش تو نہیں کر رہی۔ اس حوالے سے ایک وزیر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ’’اس پورے معاملے میں سب سے زیادہ نقصان نواز شریف کو ہو گا، اب وہ فوج اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کے دباؤ میں رہیں گے۔ مستقبل میں انہیں انتہائی احتیاط سے کام لینا ہو گا۔‘‘

ایک سال قبل ہی کچھ ماہرین نے کہا تھا کہ نواز شریف کو اس طرح کے سیاسی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے اس دوران سابق صدر اور فوجی سربراہ پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلا کر فوج کی اعلیٰ قیادت کو ناراض کیا ہے۔ ساتھ ہی طالبان کے خلاف فوجی کارروائیوں کی بھی مخالفت کی جبکہ صحافی حامد میر پر فائرنگ کے واقعے میں بھی انہوں نے میڈیا گروپ جیو کی طرف داری کی۔ جیو اور حامد میر نے اس حملے کی ذمہ داری خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر عائد کی تھی۔ اس کے علاوہ وہ بھارت کے ساتھ مصالحت کے بھی حامی ہیں اور فوج کو یہ بات بھی نا پسند ہے۔

پاکستانی خفیہ ادارے کے ایک سابق سربراہ نے نام مخفی رکھے جانے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ’’بے شک فوج کے خیال میں عمران خان حکومت پر شدید دباؤ ڈالنے کا ایک ذریعہ ہو سکتے ہیں لیکن بطور سربراہ اُن پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘