1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی فلم انڈسٹری کی تباہی کی وجہ جہالت بنی، فردوس جمال

عصمت جبیں، اسلام آباد2 مارچ 2015

معروف پاکستانی اداکار اور بےشمار ایوارڈز حاصل کرنے والے سینئر آرٹسٹ فردوس جمال نے اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت کی تباہی کی وجہ جہالت بنی اور یہی جہالت تاحال ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ek1x
تصویر: DW/I. Jabeen

فردوس جمال نے ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک طویل خصوصی انٹرویو میں کہا کہ اداکار اور بےوقوف پیدائشی ہوتے ہیں، وہ اداکار اور بےوقوف بنتے نہیں ہیں۔ اسی طرح جیسے کسی سے پیار ہو جاتا ہے، جو شعوری طور پر نہیں کیا جا سکتا۔ پشاور میں پیدا ہونے والے فردوس جمال اسلامیہ ہائی اسکول قصہ خوانی بازار میں بھی زیر تعلیم رہے۔ 1977 میں وہ پشاور سے لاہور منتقل ہو گئے تھے۔ دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کے والد فردوس جمال کے ساتھ ڈوئچے ویلے کی یہ گفتگو ایک ٹی وی ڈرامے کی ریکارڈنگ کے موقع پر ہوئی۔ فردوس جمال کے ساتھ خصوصی انٹرویو کا متن:

ڈی ڈبلیو: سب سے پہلے تو یہ بتایئے کہ ایک آرٹسٹ کے طور پر آپ آج کل کیا کر رہے ہیں؟

فردوس جمال: وہی ہے چال بے ڈھنگی، جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ وہی ڈرامے ہیں، وہی کیمرے، وہی لائٹس۔ کبھی دھوپ میں، کبھی سائے میں۔ عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں! مجھے اگر کبھی کوئی پوچھتا ہے کہ اداکاری کے علاوہ اور کیا کر رہے ہیں، تو مجھے یہ شعر یاد آ جاتا ہے، غلام محمد قاصر کا ہے شاید:

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

تو مجھے اداکاری کے علاوہ اور کوئی کام اگر آتا ہی نہیں تو کرتا کیسے؟

ڈی ڈبلیو: آپ نے اداکاری کب اور کیسے شروع کی؟

فردوس جمال: یہ کام شروع نہیں کیا جاتا، یہ بس شروع ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اداکار اور بےوقوف پیدائشی ہوتے ہیں۔ وہ بنتے نہیں ہیں۔ بچپن ہی سے کرتا تھا میں اداکاری۔ یہ کام میری فطرت میں تھا۔ میں اپنے ارد گرد اصلی اور زندہ کرداروں کی نقل کیا کرتا تھا۔ نقالی دراصل اداکاری کا پہلا سبق ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کے پاس اس کام سے متعلق علم کا فقدان ہے۔ وہ نقال کو اداکار اور اداکار کو نقال بنا دیتے ہیں۔ اینٹرٹینر کو اداکار اور اداکار کو اینٹرٹینر کہنے لگتے ہیں، حالانکہ ان سب میں بہت فرق ہے۔

ڈی ڈبلیو: آپ نقالی اور اداکاری کے درمیان فرق کی وضاحت کیسے کریں گے؟

فردوس جمال: نقالی سے انسان اداکار کے طور پر کرداروں کو پیش کرنے کی طرف آتا ہے۔ نقالی میں کسی کردار کو تفریح کے لیے مبالغے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اداکاری میں کردار میں مبالغہ آرائی نہیں کی جاتی، اسے پورٹرے کیا جاتا ہے۔ اسی لیے آج تک کسی نقال کو آسکر ایوارڈ نہیں ملا۔ لیکن اداکاروں اور اداکاراؤں کو ملتا ہے۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم تفریح کا سامان مہیا کرنے والے ہر فرد کو اداکار کہہ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر عمر شریف کو بھی، مرحوم معین اختر کو بھی اور امان اللہ کو بھی۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس کام کو اداروں کی سطح پر نہ شناخت کیا گیا اور نہ ہی تسلیم۔ ریڈیو اور ٹی وی کے طور پر یہ کام جو ادارے کرنے کی کوشش کر رہے تھے، وہ برباد ہو گئے۔

ڈی ڈبلیو: کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک آرٹسٹ کے طور پر آپ کی پہچان ٹیلی وژن بنا؟

فردوس جمال: تقریباﹰ! تھیٹر کے مقابلے میں ٹی وی بڑا میڈیم تھا۔ فلم شاید ٹی وی سے بھی بڑا میڈیم ہے۔ تھیٹر لوکل ہوتا ہے۔ ٹی وی علاقائی میڈیم ہوتا ہے، یا جہاں جہاں دیکھا جاتا ہو۔ لیکن فلم اگر انٹرنیشنل پبلک کو ٹارگٹ کرے تو وہ بین الاقوامی میڈیم ثابت ہوتی ہے۔ مجھے اپنی پہچان زیادہ تر ٹیلی وژن سے ملی۔

ڈی ڈبلیو: آپ کا سب سے پسندیدہ میڈیم کون سا ہے؟

فردوس جمال: میرے پسندیدہ میڈیم سارے ہی ہیں۔ اس لیے کہ انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کوئی فنکار اپنے کام سے کتنا مخلص ہے؟ خلوص اگر ہو تو کسی ایک میڈیم تک محدود نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر میں اب آپ سے بات کر رہا ہوں، پورے خلوص اور توجہ کے ساتھ۔ اگر میں اس بات چیت کو بس ٹرخانے پر آ جاؤں، تو وجہ خلوص کی کمی ہو گی۔ اداکاری پیار کی طرح ہے، وہ آپ کرتے نہیں بس ہو جاتی ہے۔ آرٹ کا تعلق براہ راست انسان کے شعور اور روح سے ہے۔ روح کا کام کوشش سے نہیں ہوتا۔ اندر کے وجود کی وجہ سے ہوتا ہے۔

ڈی ڈبلیو: فردوس جمال آرٹسٹ کی عمر کتنی ہے؟

Pakistan Schauspieler Firdous Jamal EINSCHRÄNKUNG
فردوس جمال پاکستانی ٹی وی ڈراموں میں کئی لازوال کردار ادا کر چکے ہیںتصویر: Firdous Jamal

فردوس جمال: جب سے میں نے پروفیشنل آرٹسٹ کے طور پر کام کرنا شروع کیا، یا یوں کہہ لیجیے کہ جب سے میرا فن میرے لیے آمدنی کا ذریعہ بنا، تو چالیس سال ہو گئے ہیں۔ 1974، 1975 سے۔ ریڈیو پر آڈیشن میں نے 1971 میں دیا تھا، تو اس حوالے سے پینتالیس سال ہو گئے ہیں۔ میں نے پروفیشنل آرٹسٹ کے طور پر کام کالج میں فرسٹ ایئر کے زمانے میں ہی شروع کر دیا تھا۔

ڈی ڈبلیو: آپ کے نزدیک تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلم میں سے سب سے طاقتور میڈیم کون سا ہے؟

فردوس جمال: اس وقت سب سے طاقتور میڈیم ٹیلی وژن ہے، سیاسی حوالے سے یا ڈرامے کے حوالے سے اگر کہا جائے تو۔ کام کے لحاظ سے فلم اب بھی بڑا میڈیم ہے۔ میرے لیے سب میڈیم برابر ہیں کیونکہ میں نے دلجمعی کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ ذاتی طور پر ٹیلی وژن نے مجھے بہت زیادہ نام بھی دیا اور وہ سب کچھ کرنے کے امکانات بھی جو میں کسی دوسرے میڈیم میں نہیں کر سکتا تھا۔ مجھے ریڈیو سے بھی بہت ایوارڈز ملے لیکن ٹی وی کے مقابلے میں کم۔ پاکستان میں صدر کی طرف سے دیا جانے والا تمغہ حسن کارکردگی مجھے ٹیلی وژن کی وجہ سے ملا۔

ڈی ڈبلیو: اتنے زیادہ ایوارڈز ملنے پر خود آپ کیا کہتے ہیں؟

فردوس جمال: اگر یہ کامیابی ہے تو بھی اللہ کا احسان ہے۔ اور اگر یہ میرا نصیب تھا تو بھی۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں، وہ میرے اختیار میں نہیں تھا۔ یہ سب رب تعالیٰ کی مہربانی ہے۔

میرا مجھ میں کچھ نہیں، جو کچھ ہے سو تیرا

تیرا تجھ کو سونپ دوں تو کیا لاگے ہے میرا

ڈی ڈبلیو: ایک فلم ایکٹر کے طور پر آپ کتنے کامیاب رہے؟

فردوس جمال: جو کچھ مجھے ریڈیو، تھیٹر اور ٹیلی وژن سے ملا، فلم سے اس کا عشر عشیر بھی نہیں ملا۔ بات صرف نصیب کی ہے۔ ضروری نہیں کہ سب میدان آپ کے لیے ہوں۔ فلم میرے سے زیادہ سلطان راہی کے نصیب میں لکھی ہوئی تھی۔ اگر میرا نصیب ہوتا تو سلطان راہی کی جگہ میں ہوتا۔ میں سلطان راہی کے دور میں فلم انڈسٹری میں گیا۔ تب فلمی صنعت کے لوگوں کے رویوں کی حد تک جہالت کا دور تھا۔ جہالت کا آخری نتیجہ مکمل تباہی ہی ہوتی ہے۔ جو لوگ علم والے، باصلاحیت اور تخلیقی تھے،ان کو پیچھے کر کے جہالت کو ترویج دی گئی۔ نتیجہ فلم انڈسٹری کی تباہی کی صورت میں نکلا۔ سلطان راہی خود تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ ان کے دور میں پڑھے لکھے لوگ گھروں پر بٹھا دیے گئے اور ان پڑھ اور جاہل فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بن گئے۔ جس وقت سلطان راہی ایک حادثے میں موت کے منہ میں چلے گئے، تب تک پڑھے لکھے لوگ پاکستان فلم انڈسٹری سے کنارہ کشی کر چکے تھے اور جو باقی رہ گئے تھے، وہ فلمی صنعت کو اس کی مکمل تباہی تک لے کر گئے۔

ڈی ڈبلیو: ماضی میں ہر جگہ نظر آنے والا فردوس جمال اب لوگوں کو کم نظر کیوں آتا ہے؟

فردوس جمال: میں سمجھتا ہوں کہ میں پہلے کم کم تھا، اب زیادہ ہوں۔ پہلے صرف پاکستان ٹیلی وژن تھا، کبھی کبھی کا کام بھی زیادہ لگتا تھا۔ اب کام زیادہ ہے۔ بہت سے چینلز ہیں۔ اب زیادہ کام بھی کم لوگ دیکھتے ہیں۔ لوگوں کے پاس چوائسز بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ میں اب بھی بہت کام کر رہا ہوں۔ کئی ٹی وی چینلز کے لیے ڈرامے بنا رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو: اپنے تعلیمی کیریئر کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟

فردوس جمال: تعلیمی اسناد کے حوالے سے میری قابلیت زیادہ نہیں۔ میں نے تھرڈ، فورتھ ایئر میں تعلیم ادھوری چھوڑ دی تھی۔ اگر میں ماسٹرز کر بھی لیتا، تو تب میرے پاس وہ وقت، وہ چند سال نہ ہوتے جو مجھے آرٹسٹ کے طور پر محنت اور ابتدائی کامیابی کے لیے درکار تھے۔ میرے پاس جو بھی تھوڑا بہت علم ہے، وہ اداکاری کے بارے میں ہے اور اداکاری ہی کی وجہ سے ہے۔ یہ کام صرف پڑھنے لکھنے سے نہیں آتا۔ کسی بھی اداکار کے لیے سب سے بڑی لیب یا تجربہ گاہ اس کی اپنی ذات ہوتی ہے۔

ڈی ڈبلیو: کون سی ڈرامہ سیریل خاص طور پر آپ کی شہرت کی وجہ بنی؟

فردوس جمال: اصل معنوں میں ٹیلی وژن پر مجھے شہرت امجد اسلام امجد کی لکھی ہوئی ڈرامہ سیریل ’وارث‘ کی وجہ سے ملی۔ اس سیریل کے نتیجے میں کئی اداکار سٹار بن گئے تھے۔ پھر ایک ایکٹر کے طور پر جس ڈرامے نے مجھے خصوصی شہرت دلوائی، وہ ’برگِ آرزو‘ تھا۔ یہ ایک اسپیشل پلے تھا، اشفاق احمد کا لکھا ہوا۔ یہ 1980 میں 14 اگست، یوم آزادی پر پی ٹی وی پر دکھایا گیا تھا۔ تب میری عمر محض چوبیس پچیس برس تھی لیکن میں نے قریب 110 سال کی عمر کے ایک بزرگ کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کردار پر مجھے اس دور کے ملکی صدر ضیاء الحق نے خاص طور پر خط بھی لکھا تھا۔ روحانی طور پر مجھے ناظرین میں بہت زیادہ شہرت اشفاق احمد صاحب ہی کے لکھے ہوئے ایک ڈرامے کی وجہ سے ملی، جس کا نام تھا، ’من چلےکا سودا‘۔ وہ ڈرامہ بھی میری پہچان بنا۔

ڈی ڈبلیو: آپ کے نزدیک اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟

فردوس جمال: جہالت، اور کیا؟ سب سے بڑا مسئلہ ہی جہالت ہے۔ مناسب تعلیم اور میرٹ، صحیح کام کے لیے صحیح فرد۔ جب تک ایسا نہیں ہو گا، پاکستان آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ افلاطون نے بہت پہلے کہا تھا کہ وہ معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں، جہاں پیشوں کا مبادلہ ہوتا ہے۔ جس کا جو کام ہے، وہ نہیں کر رہا بلکہ کوئی دوسرا کر رہا ہے۔ یہ جہالت کا نتیجہ ہے اور جہالت ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔