1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی عید: کہیں خوشی کہیں غم

تنویر شہزاد،لاہور29 جولائی 2014

پاکستان میں آج سرکاری طور پر عید الفطر منائی گئی۔ اس حوالے سے ملک بھر میں عید کے بڑے بڑے اجتماعات ہوئے لیکن اس کے ساتھ ہی احمدی کمیونٹی اور وزیرستان آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے لاکھوں افراد رنجیدہ نظر آئے۔

https://p.dw.com/p/1Cl5F
تصویر: Getty Images/AFP/Asif Hassan

عیدالفطرکے موقع پر ملک کے مختلف حصوں میں متفرق قسم کے جذبات دیکھنے میں آئے۔ بیشتر علاقوں میں مسلمان شہریوں نے خوشیاں منائیں، انہوں نے عید کا دن دعوتوں میں شرکت کرنے،تفریحی مقامات کی سیر کرنے، دوستوں اور رشتہ داروں سے میل ملاقاتوں میں گزارا۔ صوبہ خیبر پختون خواہ کے کئی علاقوں میں گزشتہ روز عید منا لینے والے لوگوں کے لیے منگل ٹرو کا دن تھا۔

اس مرتبہ عید کے موقع پر ملک کے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف کیے جانے والے آپریشن کے اثرات بڑے نمایاں تھے، تقریباﹰ دس لاکھ آئی ڈی پیز نے اپنے گھروں سے دور عید منائی۔ ان کے ساتھ عید منانے کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان خاص طور پر بنوں گئے تھے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی منگل کا دن شمالی وزیرستان میں گزارا اور آپریشن میں شریک جوانوں کے ساتھ عید منائی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے عید سعودی عرب میں منائی ہے۔

Pakistan Anschlag in Gujranwala
اتوار کے روزگوجرانوالہ میں مبینہ طور پر فیس بک پر توہین آمیز مواد شائع کرنے کے الزام کے بعد احمدی کیمونٹی کے متعدد گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان میں اقلیتوں کے لیے اس مرتبہ عید کا دن کوئی اچھی خبریں نہیں لے کر آیا۔ اتوار کے روزگوجرانوالہ میں مبینہ طور پر فیس بک پر توہین آمیز مواد شائع کرنے کے الزام کے بعد احمدی کیمونٹی کے متعدد گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے میں ہلاک ہونے والے تین افراد کو منگل کے روز چناب نگر کے علاقے میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اپنی والدہ اور دو بیٹیوں کی تدفین کے بات ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے احمدی شہری محمد بوٹا نے بتایا کہ اس عید پر وہ اپنی بچیوں اور والدہ سے محروم ہو گیا ہے، ’’تمام احمدی لوگ گوجرانوالہ کے متاثرہ علاقوں کو چھوڑ چکے ہیں، وہاں پولیس کا پہرا ہے، چھ نامزد ملزمان سمیت سینکڑوں افراد کے خلاف دہشت گردی اور قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے دو افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ ہم نے زخمیوں کو بھی گوجرانوالہ سے چناب نگر شفٹ کر دیا ہے، جہاں میری بہن کی حالت کافی تشویشناک ہے۔‘‘

پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کے سابق سربراہ اور تجزیہ نگار ڈاکٹر مہدی حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے اثرات کی وجہ سے اقلیتیں اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔ ان کے بقول پاکستانی میڈیا ایک مخصوص ذہنیت اور بعض اوقات خوف کی وجہ سے اقلیتوں کو درپیش صورتحال کو درست طریقے سے سامنے نہیں لاتا۔

ان کے بقول ماضی میں اقلیتی عبادت گاہوں پر حملوں کے واقعات کی انکوائریوں کے نتائج بھی عوام کے سامنے نہیں لائے گئے۔

پاکستان کے پہلے سکھ پارلیمنٹیرین اور حکمران جماعت کی طرف سے رکن پنجاب اسمبلی سردار رمیش سنگھ اروڑہ نے گوجرانوالہ کے واقعے کی شدید مذمت کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس ایک واقعے کی وجہ سے پورے ملک کے بارے میں منفی رائے قائم کرنا درست نہیں ہو گا۔ ان کے بقول پنجاب کے چیف منسٹر اس واقعے کا نوٹس لے چکے ہیں اور قوی امکان ہے کہ قصور واروں کو سزا ضرور ملے گی۔ ان کے خیال میں اس واقعے کے بعد عالمی سطح پر پاکستان کے حوالے سے اچھا پیغام نہیں گیا۔ انہوں نے ایسے واقعات سے بچنے کے لیے بین المذاہب مکالموں کے انعقاد کی ضرورت پر زور دیا۔