1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد نو ملین سے زیادہ

دانش بابر، پشاور26 اگست 2014

یرقان یا جگر کے مرض یعنی ہیپاٹائٹس کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آئے روز لوگوں کی بڑ تعداد لقمہٴ اجل بن رہی ہے۔ ہیپاٹائٹس کی پانچ اقسام اے، بی، سی، ڈی اور ای میں بی اور سی کو جان لیوا تصورکیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1D1DK
تصویر: DW/D. Baber

پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر دسواں جبکہ پاکستان میں ہر بارہواں شخص یرقان کے عارضے میں مبتلا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہیپٹاٹائٹس کے مریضوں کی یہ تعداد نوّے لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔

خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر علی اصغر کا کہنا ہے کہ یرقان کے وائر س کی اقسام مختلف ہیں۔ ہیپاٹائٹس اے بھوک کو ختم کر دیتا ہے اور جگر میں سوزش کا باعث بنتا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی یا کالا یرقان آلودہ خون، پسینے اور جسم کے مختلف مادوں کے ذریعے ایک سے دوسرے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہ سب سے زیادہ خطرناک قسم ہے۔ ہیپاٹائٹس سی میں عموماً بیس تا چالیس سال کی عمر کے لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔ خواتین کے مقابلے میں مردوں پر اس کا حملہ زیادہ ہوتا ہے۔ خون سے پھیلنے والے وائرس سی کے باعث مریض جوڑوں کے درد، سر درد، کھانسی، گلے کی خرابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر علی اصغر
خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر علی اصغرتصویر: DW/D. Baber

ڈاکٹر علی اصغر کے مطابق احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے ملک میں ہیپاٹائٹس کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ہیپٹاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد 9 ملین سے بھی تجاوُز کر گئی ہے۔ مریضوں کی تعداد سندھ اور خیبر پختون خواہ میں سب سے زیادہ ہے۔

ڈاکٹر انیلہ بادشاہ کا کہنا ہے کہ ہر بیماری کی طرح ہیپاٹائٹس میں بھی احتیاط کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور اگر ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتے ہوئے اس پر قابو پا سکتے ہیں، مثلاً حجام کی مکمل صفائی کا اہتمام، ہمیشہ نئی سوئی سے کان چھدوانا، بچوں کے ختنے کراتے وقت احتیاط، جسم پر نقوش بنوانے سے پرہیز، ٹیکہ لگواتے وقت ہمیشہ نئی سرنج کا استعمال اور انتقال خون کے وقت صاف خون کا انتخاب۔ ہیپٹائٹس اے اور ای کی بڑی وجہ آلودہ پانی کا استعمال ہے۔

ایک مریض کا طبی معائنہ کیا جا رہا ہے
ایک مریض کا طبی معائنہ کیا جا رہا ہےتصویر: DW/D. Baber

ڈاکٹر انیلہ کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں صحت کی بنیادی سہو لیات میسر نہ ہونے کے وجہ سے دیگر بیماریوں کے ساتھ ساتھ ہییپاٹائٹس جیسی بیماری کے مریضوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور بر وقت تشخیص نہ ہونے کی صورت میں پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں اور مریض کو بچانا مشکل ہو جاتا ہے:''اگر ہم ایک سو مریض لیں تو 70 تا 80 مریض خود اپنی غفلت سے اپنے مرض کو اتنا پیچیدہ بنا لیتے ہیں کہ پھر انہیں بچانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر علی اصغر کا کہنا ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے ہیپاٹائٹس کی روک تھام اور بچاؤ کے لیے خصوصی پروگرام شروع کر رکھے ہیں، جن کے تحت مریضوں کو مفت ادویات فراہم کی جاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہیپاٹائٹس کا علاج بہت مہنگا ہے، ایک مریض کو تندرست ہونے میں چھ مہینے لگ جاتے ہیں اور اس پر ایک لاکھ روپے تک کا خرچ آ جاتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں