1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں کئی ملین معذور شہریوں کی بےبسی

تنویر شہزاد، لاہور3 مارچ 2015

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی کے باہر نابینا نوجوانوں کا احتجاج دو دنوں سے جاری ہے۔ اس احتجاج نے پاکستان میں عام لوگوں کی توجہ ایک بار پھر معذور افراد کے مسائل کی طرف مبذول کرا دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1EkXD
تصویر: DW/Tanvir Shahzad

احتجاج کرنے والے نابینا نوجوانوں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعلٰی پنجاب سرکاری ملازمتوں میں معذوروں کا کوٹہ بڑھانے، اس کوٹے کے فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے اور ان نابینا نوجوانوں کی ملازمتوں کو مستقل کرنے کا اپنا وعدہ پورا کریں۔ احتجاج کرنے والے بعض نابینا نوجوانوں نے منتخب ارکان تک اپنے مطالبات پہنچانے کے لیے پنجاب اسمبلی میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی لیکن اس پر انہیں پولیس اور سکیورٹی گارڈز کی طرف سے دھکوں، مکوں اور سخت رویوں کا سامناکرنا پڑا۔ ان مظاہرین کے مطالبات مانے جاتے ہیں یا نہیں، یہ ابھی واضح نہیں ہے لیکن اس احتجاج نے پاکستان میں عام لوگوں کی توجہ ایک بار پھر معذور افراد کے مسائل کی طرف مبذول کرا دی ہے۔

پاکستان میں اس وقت ایک کروڑ سے بھی زائد افراد مختلف قسم کی معذوریوں کا شکار ہیں۔ ان معذور شہریوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھا جاتا ہے، اس بارے میں معذور افراد کے لیے فلاحی خدمات انجام دینے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’مائل سٹون سوسائٹی فار دا سپیشل پرسنز‘ سے تعلق رکھنے والے شفیق الرحمان کہتے ہیں کہ آج کل ٹی وی چینلز پر نابینا افراد کو زد وکوب کیے جانے کے مناظر دیکھے جا رہے ہیں۔ ان کے بقول سب سے تکلیف دہ بات یہ نہیں ہے، بلکہ اصل پریشانی یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں معذور افراد کو شاید انسان ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔

Blinde Menschen protestieren in Pakistan
تصویر: DW/Tanvir Shahzad

پولیو کی وجہ سے معذوری کا شکار ہو کر وہیل چیئر کے سہارے چلنے والے شفیق الرحمان کہتے ہیں کہ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں معذور افراد کو ان کی معذوری کی وجہ سے تضحیک آمیز ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ’’دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں عوام کے پیسوں سے تعمیر کیے جانے والے جملہ انفراسٹرکچر میں معذور افراد کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ یہ سارے منصوبے مضبوط ٹانگوں والوں افراد کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ عوامی پیسے سے سڑکوں پر لوہے کی جا بجا رکاوٹیں لگا کر معذور افراد کے لیے راستے بند کر دیے جاتے ہیں۔ لاہور میں میٹرو بس ہی کے منصوبے کو لے لیجیے، کوئی وہیل چیئر والا مسافر میٹرو بس تک نہیں پہنچ سکتا۔ صرف چند مقامات پر اوپر جانے کے لیے مشینی سیڑھیاں موجود ہیں۔ لیکن واپس نیچے آنے کا کوئی بندوبست موجود ہی نہیں۔‘‘

انہوں نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔ پاکستان میں کوئی ایسی مسجد ہی موجود نہیں، جہاں وہیل چیئر کے لیے بھی رستہ موجود ہو۔ میں بینک جانا چاہتا ہوں۔ بینکوں کی سیڑھیاں میری وہیل چیئر کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ میں کسی کی محتاجی کے بغیر سفر کرنا چاہتا ہوں، لیکن کیا یہاں کوئی ایسی بس ہے جس میں وہیل چیئر کے ساتھ سوار ہوا جا سکتا ہو۔ پاکستانی معاشرہ ہم پر ترس تو کھاتا ہے، مذہبی تعلیمات کے حوالے دے کر ہمیں مبارک لوگ گردانا جاتا ہے، ہمیں جنت کی بشارتیں بھی سنائی جاتی ہیں، لیکن ہم وہیل چیئر والے شہری کسی ریستوراں میں جا کر کھانا کیوں نہیں کھا سکتے؟ پاکستانی معاشرہ اس بارے میں آخرکیوں نہیں سوچتا۔‘‘

شفیق الرحمان بتاتے ہیں کہ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ بعض پاکستانی ڈاکٹر بھی معذور افراد کا استحصال کرتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ پولیوکی وجہ سے پیدا ہونے والی جسمانی معذوری قابل علاج نہیں۔ لیکن ڈاکٹر حضرات بھی معذور بچوں کے والدین کو گمراہ کر کے پیسے بٹورتے رہتے ہیں۔ یہی حال کئی اور طرح کی معذوریوں کے شکار افراد کا بھی ہے۔ شفیق الرحمان نے کہا، ’’پاکستان میں عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ معذور بچوں کے والدین شوگر، جوڑوں یا دل کے امراض میں ضرور مبتلا ہوتے ہیں۔ اس بات سے ان پر ذہنی دباؤ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘‘ شفیق الرحمان نے مزید کہا کہ پاکستان میں معذوروں کے لیے کوئی سوشل سکیورٹی سسٹم بھی نہیں ہے۔ کئی ماں باپ اس خوف کے باعث کہ ان کے بعد ان کے معذور بچوں کا کیا بنے گا، اپنی زندگیوں میں ہی اپنے معذور بچوں کی موت کی دعائیں کرنے لگتے ہیں۔

ٹرسٹ برائے انسداد نابینا پن کے عہدیدار ڈاکٹر انتظار حسین بٹ نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں ساڑھے سولہ لاکھ افراد اندھے پن کا شکار ہیں۔ ان میں سے ستر فیصد افراد کو چند ہزار روپے کے معمولی آپریشن سے معذوری سے بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن وسائل کی کمی، آگاہی کے فقدان، انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی اور دور دراز علاقوں کے مریضوں کی آنکھوں کے سرجنز تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں ہو رہا۔ ڈاکٹر بٹ کے بقول استاد کلاس میں بچے کو مارتا ہے کہ وہ تختہ سیاہ سے دیکھ کر درست عبارت کیوں نہیں لکھ رہا لیکن عام طور پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ استاد جانتا ہی نہیں کہ بچہ قوت بصارت کی کمی کی وجہ سے ایسا نہیں کر پا رہا ہوتا۔ ’’اصل میں اسے سزا کی نہیں بلکہ فوری ڈاکٹری معائنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

محمد شبیر نامی ایک نابینا نوجوان بھی لاہور کے مال روڈ پر احتجاج کرنے والوں میں شامل ہے۔ منگل کی شام ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ وہ اسپیشل ایجوکیشن کے محکمے میں کرسیاں بنانے کا کام کرتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ اس کی ملازمت کو مستقل کر دیا جائے۔ لیکن محکمے کی بیوروکریسی قواعد و ضوابط کی آڑ لے کر اس مسئلے کو حل کرنے سے گریزاں ہے۔

Asad Ullah Rollstuhlfahrer aus Pakistan
پاکستان کے نیشنل وہیل چیئر ریس چیمپئن اسد اللہ، جنہوں نے جسمانی معذوری کو اپنی ناکامی کی وجہ نہیں بننے دیاتصویر: DW/D. Baber

ایسا کیوں ہے؟ اس بارے میں شفیق الرحمان کہتے ہیں کہ معذوروں کے لیے پالیسیاں بنانے والوں میں معذور لوگوں کی مشاورت شامل نہیں ہوتی۔ کوئی بیوروکریٹ نہیں جانتا کہ کوئی معذور فرد وہیل چیئر سے ٹائلٹ میں کوموڈ تک کیسے پہنچتا ہے۔ ان کے بقول معذور لوگوں کے نمائندوں کو پالیسی سازی کے عمل میں شریک کیا جانا چاہیے، تمام معذور افراد کو سرکاری خرچ پر مددگار فراہم کیے جائیں۔ اس سے ملک میں بےروزگاری کی شرح بھی کم ہو گی۔ ان کے بقول تمام انفراسٹرکچر اور ٹرانسپورٹ منصوبوں میں معذور افراد کی ضروریات کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ ’’نابینا افراد کو ان کی امتیازی نشانی، سفید چھڑیاں، اور معذور افراد کو وہیل چیئر وغیرہ بھی ریاست کو فراہم کرنی چاہییں۔‘‘

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں ’سب کچھ ہی برا نہیں ہے‘۔ اس کی ایک مثال بصارت سے محروم سعدیہ بٹ بھی ہیں، جنہوں نے اپنی معذوری کے باوجود اعلٰی تعلیم حاصل کی اور اب لیکچرار اسپیشل ایجوکیشن کے طور پر بچوں کو پڑھا رہی ہیں۔ سعدیہ کے شوہر ٹانگوں سے معذور ہیں لیکن یہ دونوں میاں بیوی مل جل کر زندگی کی گاڑی کو ہنسی خوشی آگے بڑھا رہے ہیں۔

پنجاب کے دارالحکومت کے ایوان صنعت و تجارت کے تعاون سے لاہور ہی میں ’لیبارڈ‘ کے نام سے ایک فلاحی ادارہ بھی قائم ہے۔ اس ادارے سے منسلک عاصمہ ضیا کہتی ہیں، ’’فیزی بیلیٹی پر توجہ دینے والے لوگ عام طور پر معذور افراد کو ملازمتیں دینے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘ لیکن پھر بھی ان کا ادارہ بہت سے بچوں کو تربیت دے کر نجی شعبے میں ملازمتیں دلوا چکا ہے۔ ان کے بقول لاہور اور اس کے گرد و نواح سے نو ہزار سے زائد معذور نوجوان ملازمتوں اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے خود کو ان کے ادارے کے پاس رجسٹر کرا چکے ہیں۔