پاکستان میں ’عزت کی نگاہ‘ کے متلاشی
ستائیس سالہ وسیم اکرم دن کو تو موبائل فونز کی ایک دکان پر کام کرتا ہے لیکن اکثر راتوں کو وہ پارٹی ڈانسر ’رانی‘ کا روپ دھار لیتا ہے۔ پاکستان میں آج بھی ہیجڑوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
رات کا رقاص
سورج ڈھلتے ہی وسیم ایک ہیجڑے کا روپ دھار لیتا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر ڈانس پارٹیاں رات ہی کو ہوتی ہیں۔ اندازوں کے مطابق پاکستان میں آٹھ لاکھ خواجہ سرا ہیں۔ عمومی طور پر ایسے افراد کو ایک ہی کردار میں پسند کیا جاتا ہے اور وہ ہے شادی بیاہ یا نجی پارٹیوں میں ڈانسر کا کردار۔
دن میں دوسری دنیا
پاکستان میں خواتین اور مردوں کے کردار واضح ہیں جبکہ مخنث افراد کو اکثر و بیشتر نامناسب رویے کا سامنا رہتا ہے۔ وسیم دن میں ایک دکان پر کام کرتا ہے اور اس نے بھی اپنی دوہری شخصیت کو اپنے جاننے والوں چھپایا ہوا ہے۔
وسیم سے ’رانی‘
وسیم خواجہ سرا تو نہیں ہے لیکن اسے خواتین کے کپڑے پہننے کا شوق ہے۔ وسیم کا کہنا ہے، ’’میں کوئی ہیجڑا نہیں ہوں۔ میں بس ایک ایسا مرد ہوں، جسے رقص کرنا پسند ہے۔ مجھے بہتر زندگی گزارنے کے لیے پیسے کی ضرورت ہے اور ایک عورت کا روپ دھارتے ہوئے میں زیادہ کما سکتا ہوں۔‘‘
تنہائی میں اپنا خاندان
ایسے کئی افراد معاشرے یا اپنے خاندان کے رد عمل کے ڈر سے اپنا اپنا گاؤں چھوڑ کر شہروں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ خواجہ سرا اپنے جیسے لوگوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ تینتالیس سالہ بختاور کا کہنا ہے کہ اُسے تنہا باہر جانے سے ڈر لگتا ہے لیکن اپنے جیسے ساتھیوں میں حفاظت اور احترام کا احساس ملتا ہے۔
ہیجڑوں کے خواب
پاکستان میں معاشرتی سطح پر ہیجڑوں کو ایک طرف تو مشکلات کا سامنا رہتا ہے لیکن دوسری طرف ان کے قانونی حقوق میں بہتری بھی پیدا ہوئی ہے۔ سن 2011 ميں خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ حاصل کرنے، ووٹ ڈالنے، اپنا ذاتی اکاؤنٹ کھولنے، سرکاری سطح پر کام کرنے اور پاسپورٹ وغیرہ بنوانے کے حقوق حاصل ہو گئے تھے۔
مساوی حقوق کے لیے مہم
سپریم کورٹ کی طرف سے حقوق ملنے کے بعد 2013ء میں پہلی مرتبہ خواجہ سراؤں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ بندیا رانی (تصویر میں دائیں طرف) نے بھی اپنی انتخابی مہم چلائی۔ بندیا رانی پارلیمان میں تو نہ جا سکی لیکن وہ ایک غیر سرکاری تنظیم کے ہمراہ خواجہ سراؤں سے امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے ضرور کوشاں رہتی ہے۔
ہمیشہ کی دوہری زندگی
چوالیس سالہ امجد کے برعکس کم ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو اپنی دوہری زندگی یا دوہری شخصیت کے بارے میں فخر سے بتاتے ہیں:’’مجھ میں بس ایک ہی کمی ہے کہ میں عورت کی طرح کسی بچے کو جنم نہیں دے سکتا۔‘‘
شاندار ماضی
ان کا ذکر ہندوؤں کی قدیم کتابوں میں بھی ملتا ہے جبکہ سولہویں اور سترہویں صدی میں مغل دورِ حکومت کے دوران ہیجڑے قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور یہ زیادہ تر ذاتی ملازموں یا محافظوں کے طور پر شاہی درباروں سے وابستہ ہوتے تھے۔
امتیازی سلوک میں کمی
سماجی ماہرہن کے مطابق اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ خواجہ سراؤں کے ساتھ امتیازی سلوک میں کمی آ رہی ہے لیکن اس کی رفتار بہت کم ہے۔