پاکستان میں طوفان، امدادی کارروئیاں جاری
پاکستان کے شمال مغربی حصے میں طاقتور طوفان باد وباراں کے نتیجے میں کافی تباہی ہوئی ہے۔ امدادی کارکن طوفانی ہواؤں کا شکار ہونے والی عمارتوں میں پھنسے لوگوں کو نکالنے میں مصروف ہیں۔
پریشان حال امداد کا طالب
شمال مغربی پاکستان میں اتوار کی رات شدید طوفانی بارش کی وجہ سے سینکڑوں گھر منہدم ہو گئے ہیں۔ پشاور کا ایک رہائشی موسم کے معمول پر آنے کے بعد اپنے گھر کے ملبے سے سامان اکھٹا کر رہا ہے۔
تمام قوم مغموم
اس قدرتی آفت کے بعد پیر کی صبح پشاور اور اس کے قریب واقع علاقوں سے درجنوں جنازے نکلے، جس نے سینکڑوں رشتہ داروں کے ساتھ ملک بھر کے باسیوں کو آبیدہ کر دیا۔
روزمرہ زندگی مفلوج
شدید نوعیت کے طوفان نے گردونواح میں مضبوط درختوں کو اکھاڑ پھینکا، جس کی وجہ سے اکثر راستے آمدورفت کے لیے بند ہوگئے۔ یوں روزمرہ کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔
مٹی کے گھر بہہ گئے
طوفان کی تباہ کاریوں کے بعد ایک بزرگ اپنے گھر کے چھت کا معائنہ کر رہا ہے۔ معلومات کے مطابق زیادہ تر گھروں کے انہدام کی بڑی وجہ مٹی کے بنے گھر تھے، جو اس قدرتی آفت کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔
امدادی کاموں میں دشواریاں
طوفان اور بارش کے بعد شہر کے مختلف مقامات جوہڑوں کا سماں پیش کرتے رہے، جس کی وجہ سے اکثر مقامات پر امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا رہا۔
فوج بھی طلب کر لی گئی
متاثرہ علاقے میں امدادی کارروائیوں اور ٹرانسپورٹ کی بحالی کے لیے پاکستانی فوج کی نگرانی میں بھاری مشینری کا استعمال بھی کیا گیا۔
ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ
قدرتی آفت کی وجہ سے جہاں 45 افراد کی اموات واقع ہوئیں، وہیں انہی طوفانی بارشوں کی وجہ سے سینکڑوں افراد شدید زخمی بھی ہو گئے، جن کو بروقت علاج کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے شہر بھر کے بڑے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔
فوجی جوان امدادی کارروئیوں میں مصروف
پشاور اور اس کے مضافات میں گزشتہ رات طوفانی بارش کی تباہی کے بعد پاکستانی فوج کے جوان امدادی کارروائیوں میں پیش پیش رہے۔
متاثرین صوبائی حکومت سے برہم
رات بھر شدید بارش کی وجہ سے صبح تک پشاور کی مرکزی شاہراہوں پر کھڑے پانی کی وجہ سے آمدورفت میں دشواری تھی جو کہ موجودہ صوبائی حکومت کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
قیاس آرائیاں
رہائشی علاقوں میں گھروں اور دوکانوں کے گرنے کی ایک وجہ صوبہ میں حالیہ تجاوزات کے خلاف آپریشن بھی بنائی جاتی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تجاوزات کے ختم کرنے کے بعد ان کے مرمت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔