1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں سزائے موت پر پابندی ختم، ملا جلا ردعمل

شکور رحیم، اسلام آباد18 دسمبر 2014

پاکستان میں حکومت کی جانب سے سزائے موت پر عائد غیر اعلانیہ پابندی ہٹائے جانے کے فیصلے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1E70W
تصویر: Reuters/F. Aziz

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے پشاور میں فوج کے زیر انتظام اسکول پر دہشت گردانہ حملے میں 132 بچوں سمیت 141 افراد کی ہلاکت کے بعد بدھ کو دہشت گردی کے واقعات میں ملوث مجرموں کو دی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کا اعلان کیا تھا۔

اس ضمن میں جمعرات کو مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر ممنون حسین نے سزائے موت پانے والے 17 قیدیوں کی رحم کی اپیل مسترد کر دی۔

سپریم کورٹ میں پھانسی کی سزا کو عمر قید میں بدلنے سے متعلق ایک آئینی درخواست پر گزشتہ برس سرکاری طور پر جمع کرائے گئے اعدادو شمار کے مطابق ملک کی 89 جیلوں میں سزائے موت کے 7134 قیدی تھے۔

حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق پنجاب میں 6 ہزار 424، سندھ میں 355، خیبر پختونخوا میں 183، بلوچستان میں 79 اور گلگت بلتستان میں 15 سزائے موت کے قیدی موجود ہیں۔

تاہم انسانی حقوق کمشن پاکستان کے مطابق پاکستان کی مختلف جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کی تعداد ساڑھے آٹھ ہزار ہے۔

Wache vor der Schule in Peschawar 17.12.2014
پاکستان میں اس واقعے پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہےتصویر: AFP/Getty Images/F. Naeem

سپریم کورٹ میں پھانسی کی سزا کو عمر قید میں بدلنے کے لئے درخواست گزار ایک وکیل بیرسٹر ظفراللہ کا کہنا ہے کہ وہ بھی دہشت گردی کے مجرموں کو دی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کے حق میں ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’میری درخواست میں عدالت سے دہشت گردی کے علاوہ دیگر الزمات میں سزائے موت پانے والے ملزمان کو سزائے موت دینے کے بجائے عمر قید کی سزا دینے کا کہا گیا ہے۔‘‘

پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد کو غیر اعلانیہ طور پر روکنے کے حکومتی فیصلے کے خلاف لکھنے اور بولنے والے صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ سزائے موت پر عمل درآمد کے فیصلے سے دہشت گردی اور جرائم کو روکنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا، ’خون کے بدلے خون کی سزا قرآن اور اسلامی قوانین کے عین مطابق ہے اور اس کا مقصد ہی قتل وغارت گری اور دیگر برائیوں پر قابو پانا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کو یہ اخیتار نہیں کہ وہ موت کی سزا پر عمل د درآمد کو روکیں یا مجرموں کی رحم کی اپیلوں کا فیصلہ کریں۔

خیال رہے کہ پاکستان میں سزائے موت پر غیر اعلانیہ پابندی پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے لگائی تھی۔

تاہم حکومت کی تبدیلی کے بعد مسلم لیگ (ن)کی موجودہ حکومت نے سزائے موت پر پابندی ختم کرنے کا عندیہ دیا تو دہشت گردوں کی جانب سے جماعت کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی گئی،جس کے بعد پھانسی کی کسی بھی سزا پر عمل در آمد نہیں کیا جاسکا تھا۔

تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں اور بعض وکلاء کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے سزائے موت پر عمل درآمد کا فیصلہ عجلت میں کیا گیا ہے۔ پاکستان انسانی حقوق کمشن کی سربراہ زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ حکومت کو دیکھنا ہو گا کہ ان کے فیصلے کی زد میں کوئی بے گناہ تو نہیں آرہا۔ انہوں نے کہا، ’پاکستان کے عدالتی نظام اور تفتیش کا معیار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، ایسے میں غلطیوں کا احتمال رہتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کو کسی بھی اہم فیصلے سے پہلے مد نظر رکھنا چاہیے۔‘‘

فوجداری قوانین کے ایک ماہر وکیل امجد قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سزائے موت پر عمل در آمد کے فیصلے کی بحالی سے قبل اس کے بین الاقوامی مضمرات کا بھی جائزہ لینا چاہیے تھا ۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین نے پاکستان کو ترجیحی تجارت کے لئے جی ایس پی پلس کا جو درجہ دیا تھا، اس کا ایک سبب سزائے موت پر عمل درآمد نہ ہونا بھی تھا۔

سابق نگران وزیر قانون اور بین الاقوامی قوانین کے ماہر احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا بین الاقوامی طور پر کوئی قانونی مضمرات نہیں ۔ انہوں نے کہا، ’پاکستان انسانی حقوق کے جتنے بھی بین الاقوامی کنوینشن کا دستخط کنندہ ہے ان میں سزائے موت پر عمل در آمد روکنے کی پابندی نہیں۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بھی دہشت گردی کے خلاف اقدامات کیے جانا ضروری ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سزائے موت کی بحالی کے فیصلے کا مقدمہ سفارتی محاذ پر لڑنے کے لئے بہتر حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ وہ دنیا کو باورکرا سکے کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے یہ اقدام اٹھانا ناگزیر تھا۔