1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں دو برس قبل اغوا ہونے والی چیک خواتین رہا

افسر اعوان28 مارچ 2015

پاکستان میں 2013ء میں اغواء ہونے والی جمہوریہ چیک سے تعلق رکھنے والی دو خواتین کو رہا کر دیا گیا ہے۔ چیک وزیراعظم نے آج ہفتے کے روز بتایا کہ یہ دونوں خواتین اپنے وطن واپس پہنچ گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1EytD
تصویر: picture alliance/AA/O. Bilgin

چیک جمہوریہ کے وزیراعظم بوسلاف سابوٹکا نے ملکی نیوز چینل CT24 سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ ہانا ہمپولووا اور انتونی کریسٹیکا چیک ری پبلک واپس پہنچ چکی ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں 26 سالہ خواتین کی رہائی میں ترک مسلم ہیومینیٹیرین تنظیم IHH نے اہم کردار ادا کیا۔ سابوٹوکا کا مزید کہنا تھا، ’’میں میڈیا سے کہنا چاہوں گا کہ وہ ان دونوں خواتین کی پرائیویسی کا احترام کرے۔‘‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کریسٹیکا اور ہمپولووا دونوں سائیکالوجی کی طالبات ہیں اور انہیں چٹھیاں منانے کے دوران 13 مارچ، 2013ء کو پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں اس وقت اغواء کر لیا گیا تھا جب وہ ایران سے پاکستان داخل ہوئیں اور قبائلی پولیس اہلکار کی حفاظت میں کوئٹہ جا رہی تھیں۔

اغواء کے کچھ وقت بعد جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں ان دونوں خواتین نے درخواست کی تھی کہ پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کر دیا جائے جو القاعدہ سے تعلقات رکھنے کے الزام میں 2010ء سے امریکا میں قید ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں جرائم پیشہ لوگ تاوان حاصل کرنے کے لیے مقامی اور غیر ملکی لوگوں کو اغواء کر لیتے ہیں اور بعض اوقات ان لوگوں کو طالبان یا القاعدہ سے تعلق رکھنے والے گروپوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔

ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی انادولو نے رہائی پانے والی ایک خاتون کریسٹیکا کے حوالے سے لکھا ہے، ’’مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ میں یہاں ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ خواب تو نہیں۔‘‘

ہم نے دستیاب تمام وسائل ان لڑکیوں کو واپس لانے کے لیے استعمال کیے، عزت شاہین
ہم نے دستیاب تمام وسائل ان لڑکیوں کو واپس لانے کے لیے استعمال کیے، عزت شاہینتصویر: picture alliance/AA/O. Bilgin

نیوز ایجنسی کے مطابق کریسٹیکا اور ہمپولووا دو ماہ تک جاری رہنے والے مشکل مذاکرات کے بعد جمعہ کو دیر گئے ترکی پہنچیں۔ IHH کے اہل کار اور اغواء کاروں کے ساتھ مذاکرات کرنے والے عزت شاہین نے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ اغوء شدہ خواتین کے خاندانوں نے ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد آخری کوشش کے طور پر اس ترک امدادی تنظیم سے رابطہ کیا تھا۔

شاہین نے انادولو کو مزید بتایا، ’’ہم نے دستیاب تمام وسائل ان لڑکیوں کو واپس لانے کے لیے استعمال کیے۔ ہم نے انہیں ان کے خاندان کو آج بہ حفاظت واپس پہنچا دیا ہے۔‘‘ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ بات انہیں بھی معلوم نہیں ہو سکی کہ ان خواتین کو کیوں اغواء کیا گیا تھا۔

اگست 2013ء میں ریکارڈ کی گئی ایک اور ویڈیو میں ان دونوں خواتین نے چیک حکومت سے اپیل کی تھی کہ وہ ان کی جلد سے جلد رہائی کے لیے اسلام آباد حکومت پر دباؤ ڈالے۔

انادولو سے گفتگو کرتے ہوئے ہمپولووا کا کہنا تھا، ’’وہ سب بہت مشکل تھا۔ ہم نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ ہتھیار اور مسلح لوگ دیکھے تھے۔ ہمیں ابھی تک علم نہیں کہ ہمیں کیوں اغواء کیا گیا۔ وہاں ہتھیاروں سے فائرنگ ہوتی تھی اور بم پھٹتے تھے۔ مگر ہم وقت کے ساتھ اس کے عادی ہو گئے۔‘‘