1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں جسمانی اعضاء کی پیوند کاری، مسائل اور تحفظات

عنبرین فاطمہ، کراچی25 اگست 2014

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں مختلف اعضاء کے ناکارہ ہوجانے کے باعث ہر سال قریب 50 ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اعضا کی پیوند کاری کے ذریعے ہزاروں انسانوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں

https://p.dw.com/p/1D0N0
تصویر: picture-alliance/dpa

جسمانی اعضاء کے عطیہ اور پیوندکاری کے حوالے سے شعور اور آگاہی کے لیے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم اے ڈونیٹ لائف آرگنائزیشن (A Donate Life Organisation) کے مطابق محض ایک فرد اپنے اعضاء عطیہ کر کے پچاس لوگوں کو نئی زندگی دے سکتا ہے۔

اعضاء کی پیوندکاری کے حوالے سے مشہور پاکستانی ادارے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈٹرانسپلاٹیشن (SIUT) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے مطابق اس وقت ملک میں 25 ہزار مریضوں کو گُردوں، ایک لاکھ مریضوں کو جگر، سات ہزار کو دل اور دو ہزار مریضوں کو پِتے کی پیوندکاری کی ضرورت ہے۔ تاہم اعضا کے عطیہ کنندگان کی تعداد نہایت ہی کم ہے۔

Organspende Organ Transplantation
تصویر: Fotolia

کسی بھی شخص کی موت کے بعد اس کے جو اعضاء عام طور پر پیوندکاری کے کام آتے ہیں وہ آنکھیں، دل، پھیپھڑے، گُردے، پِتہ، جگر اور آنتیں ہیں، جبکہ پاکستان میں جو اعضاء سب سے زیادہ عطیہ کیے جاتے ہیں، وہ ہیں گردے اور آنکھیں۔

ڈاکٹروں کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ مختلف اعضاء عطیے کرنے کے لیے ڈونر یا عطیہ کنندہ کی موت واقع ہو بلکہ اگر آپ چاہیں تو اپنی زندگی میں بھی بعض اعضا عطیہ کر سکتے ہیں جن سے آپ کی زندگی یا صحت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا۔

واضح رہے کہ SIUT کے علاوہ پاکستان میں جن اداروں کے ذریعے اپنے اعضاء عطیہ کیے جا سکتے ہیں ان میں شفاء انٹرنیشنل ہسپتال، ٹرانسپلانٹیشن سوسائٹی آف پاکستان، پاکستان آئی بینک سوسائٹی ربوہ، بلڈ اینڈ آئی ڈونیشن سینٹر، الشفا ٹرسٹ آئی ہسپتال اور ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹیشن اتھارٹی شامل ہیں۔

ملک میں سالانہ ہزاروں افراد عطیہ شدہ اعضاء کے انتظار میں ہی موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے باوجود لوگوں کو جسمانی اعضاء عطیہ کرنے کی جانب مؤثر انداز میں مائل نہیں کیا جا سکا۔ طبی ماہرین کے مطابق بعض لوگ جسمانی اعضاء اس لیے عطیہ نہیں کرتے کیونکہ ان کے خیال میں ایسا کرنے سے ان کی اپنی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان کو خوف ہوتا ہے کہ اعضاء عطیہ کرنے کے بعد انہیں زیابیطس، بلند فشار خون یا کولیسٹرول کی زیادتی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک وجہ عطیہ کرنے کے طریقہ کار سے لاعلمی بھی ہے۔ بعض افراد مذہبی بنیادوں پر بھی اسے غیر اسلامی سمجھ کر اعضاء عطیہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

Spenderniere während Transplantation
تصویر: picture-alliance/dpa

اب سے چند برس قبل تک پاکستان میں انسانی اعضاء کی غیر قانونی خرید وفروخت اور پیوند کاری ایک بڑا مسئلہ تھا۔ تاہم 2010ء میں ملک کی مرکزی حکومت نے ایک قانون سازی کے تحت صرف منظور شدہ بڑے اسپتالوں میں ہی اعضاء کی پیوندکاری کی اجازت دی۔ صرف یہی نہیں بلکہ غیر قانونی طور پر اعضاء کی خرید و فروخت کرنے والوں کے خلاف سزائیں بھی تجویز کی گئیں۔

طبی ماہرین کے مطابق ملک میں ہر سال ہزاروں افراد ایسے اعضاء کے ناکارہ ہو جانے کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جو کسی فرد کی جانب سے با آسانی عطیہ دیا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں میں اعضاء عطیہ کرنے کے حوالے سے آگاہی کو مزید بڑھایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہو سکیں۔